Book Name:Aashiqon ka Hajj
میرے پڑوسی نے گھبرا کر مجھ سے کہا : ابھی تو سفر کی شُروعات ہیں اور ان کا یہ حال ہے ،خُدا جانے آگے کیا عالَم ہوگا! میں نے اِنْفِرادی کوشِش کرتے ہوئے کہا : گھبرائیے نہیں سفر کا مُعامَلہ ہے، ہوسکتا ہے بال بچّوں کی جُدائی میں رو رہے ہوں اور آگے چل کر قَرار آجائے۔
حضرت سیِّدُنابُہَیْم عِجلیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ بات سُن لی اور فرمایا : وَاللّٰہ! ایسی بات نہیں ،اِس سفر کے سبب مجھے’’سَفرِ آخِرت‘‘یادآگیا۔یہ فرماتے ہی چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ پڑوسی نے پھر پریشانی کے عالَم میں مجھ سے کہا : میں ان کے ہمراہ کیسے رہ سکوں گا! ہاں ان کا سفر حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائی اور سیِّدُنا سلام اَبُو اْلاَحْوَص رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ یہ دو حضْرات بھی بَہُت روتے ہیں، اُن کے ساتھ ان کی ترکیب خُوب رہے گی اور مل کر خُوب رویا کریں گے۔ میں نے پھر پڑوسی کی ہمّت بندھائی، آخرِ کار وہ اُن کے ساتھ سَفرِ مدینہ پر روانہ ہوگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جب حج سے ان کی واپَسی ہوئی تو میں اپنے پڑوسی حاجی کے پاس گیا، اُس نے بتایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو جزائے خَیر دے، میں نے ان جیسا آدَمی کہیں نہیں دیکھا، حالانکہ میں مالدار تھا پھر بھی غریب ہونے کے باوُجُود وہ مجھ پر خُوب خَرْچ کرتے تھے، بوڑھے ہونے کے باوُجُود روزے رکھتے ، مُجھ بے روزہ جَوان کے لیے کھانا بناتے اور میری بے حَد خِدمت کیا کرتے تھے۔ میں نے کہا : آپ تو ان کے رونے کے سبب پریشان ہوتے تھے اب کیا ذِہْن ہے؟ کہا : پہلے پَہَل میں بلکہ دیگر قافِلے والے بھی ان کے رونے کی کَثْرت سے گھبرا جاتے تھے مگر آہِستہ آہِستہ ان کی صُحبت کی بَرَکت سے ہم پر بھی رقّت طاری ہونے لگی اور ان کے ساتھ ہم سب بھی مل کر روتے تھے۔
حضرتِ سَیِّدُنا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکہتے ہیں: اِس کے بعد میں حضرت سیِّدُنابُہَیْم عِجلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کی خدمت میں حاضِر ہوا اوراپنے پڑوسی حاجی کے
بارے میں دریافْت کیا تو فرمایا :بَہُت اچھا رفیق (ساتھی) تھا، ذِکْرُ
اللہ اورقرآنِ کریم کی تلاوت کی کثرت کرتا تھا اور
اس کے آنسو بہت جلد بہہ