Book Name:Husn-e-Zan ki Barkatain
اُس نے دل میں کہا :” کہاں مجھ جیسا عبادت گزار اور کہاں یہ پرلے درجے کا گنہگار !یہ میرے پاس کیسے بیٹھ سکتا ہے! “چنانچِہ اُس نے بڑی حَقارت سے اُس شخص کو مخاطِب کیا اور کہا : ”یہاں سے اُٹھ جاؤ!“اِس پراللہ تعالٰی نے اُس زمانے کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی بھیجی کہ ”ان دونوں سے فرمائیے کہ وہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں، میں نے اس گنہگار کو (اس کے حُسنِ ظن کے سبب) بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل (اس کے تکبر کے باعث)ضائع کردیے۔“( احیاءعلوم الدین،ج3،ص429)
فخر و غرور سے تُو مجھے بچانا
یا ربّ مجھے بنا دے پیکر تُو عاجزی کا
(وسائلِ بخشش)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا کہ عبادت گزار نے گنہگار کو کمتر اور حقیر جانا تو اِس تکبر کی وجہ سے اُس کی عبادت ضائع کر دی گئی، فسادی و گنہگار شخص نے عبادت گزار کو اچھا جانا اور اس سے حُسنِ ظن رکھا تو اُس کے حُسنِ ظن کی برکت سے اللہ تبارک وتعالٰی نے اُس کی بخشش فرما دی۔
شیخِ طریقت ،امیر اہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:"حُسنِ ظن میں کوئی نُقصان نہیں اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں"۔
یاد رہے!ہر وہ خیال جوکسی ظاہِری نشانی سے حاصل ہوتاہے،گُمان کہلاتا ہے،اسے ظَن بھی کہتے ہیں۔ مثلاً دُور سے دُھواں اُٹھتا دیکھ کر آگ کی مَوْجودگی کا خیال آنا، یہ ایک گُمان ہے۔ (مفردات اِمام راغب،ص۵۳۹،ماخوذاً)