Book Name:Husn-e-Zan ki Barkatain
1) سب سے بڑھ کر یہ کہ حُسنِ ظن قائم کرنے کی صُورت میں بندے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے مَدَنی حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا حاصل ہوتی ہے۔
بدگمانی کے بہت سے نُقصانات ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
1. اگر سامنے والے پر اپنی بدگمانی کرنے کااظہار کِیا تو اُس کی دِل آزاری کا قوی اندیشہ ہے اور بغیر اِجازتِ شرعی مسلمان کی دِل آزاری حرام ہے ۔
2. اگراس کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے پر اِظہار کِیا تو غِیبت ہوجائے گی اور مُسَلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
3. بدگُمانی کے نتیجے میں تَجَسُّس پیدا ہوتا ہے، کیونکہ دِل محض گُمان پر صَبْر نہیں کرتا، بلکہ تَحْقِیْق طَلَب کرتا ہے، جس کی وجہ سے اِنسان تَجَسُّس میں جاپڑتا ہے اور تَجَسُّس یعنی اپنے مُسَلمان بھائیوں کے گُناہوں کی ٹَوہ میں رہنا یہ بھی ممنوع ہے ۔
4. بدگمانی سے بُغض،حَسَد، کینہ، نَفْرت اور عَداوت جیسے باطِنی اَمراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔
(فتح الباری ،ج۱۰،ص۴۱۰، حدیث:۶۰۶۶)
5. بات بات پر بدگمانی کرنےوالے شَخْص سے لوگ کَتراتے ہیں اورایسا شَخْص لوگوں کی نگاہوں میں ذَلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
خُدایا عطا کر دے رحمت کا پانی
رہے قَلب اُجلا دُھلے بد گُمانی
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد