Book Name:Baron ka Ihtiram Kijiye
اپنے اُستادوں کا بے حد ادب واحترام کرتے تھے ،ان کی موجودگی میں نگاہیں جُھکائے، خاموشی کے ساتھ علم حاصل کرتے اور بعض تواپنے استاد صاحب کا اس قدر ادب بجالاتے کہ ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ بتانا بھی بےادبی تصور کرتے تھے ،آئیے اس تعلق سے دو واقعات سُنتے ہیں،چنانچہ
حضرتِ سیّدنا امیر ِ مُعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی علمی مجلس کی تعریف کرتے ہوئے ایک قریشی سے فرمایا: مسجدِ نبوی میں چلے جاؤ، وہاں ایک حلقےمیں لوگ ہمہ تن گوش ہو کریُوں باادب بیٹھے ہوں گے گویا اُن کے سروں پر پرندےبیٹھے ہیں، جان لینا یہی حضرت سیّدنا امام ابوعبداللہ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مجلسہے۔مزید فرمایا:اس حلقے میں مذاق مسخری نام کی کوئی شے نہ ہو گی۔ (تاریخ ابن عساکر ،حسین بن علی بن ابی طالب ، ۱۴/۱۷۹ملخصاً(
اسی طرح حضرت سہل بن عبدُاللہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےکوئی سوال کیا جاتا، تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے (یعنی جواب نہیں دیتے )تھے۔ ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پُشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا،''آج جو کچھ پُوچھنا چاہو،مجھ سے پوچھ لو۔''لوگوں نے عرض کی، ''آج کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟'' فرمایا،''جب تک میرے اُستاد حضرت ذُوالنُّون مصریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حیات تھے، ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گُریز کیاکرتا تھا۔''
لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مُطابق حضرت ذُوالنُّون مصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بناء پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں، تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذُوالنُّون مصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کاانتقال ہوگیا تھا۔ (تذکرۃ الاولیاء،ج۱،ص ۲۲۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی اپنے اساتذۂ کرام سے ادب واحترام سے پیش آنا چاہیے