Book Name:Jhoot ki Badboo
باب فی حفظ اللسان، ۴/۲۱۳، حدیث: ۴۸۳۲)
1. ارشاد فرمایا:خرابی ہے اس کے لیے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے ، اس کے لیے خرابی ہے، اس کے لیے خرابی ہے۔ (ترمذی ،۴/۱۴۲، حدیث: ۲۳۲۲)
جھوٹی باتیں کرنے والے توبہ کر |
بات میری مان تُو اللہ سے ڈر |
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فضول چوپال لگانے، ہوٹلوں کی رونق بڑھانے،دوستوں کی مجلسوں میں وقت گنْوانے ، محفل گرمانے اورلوگوں کو ہنسانےکیلئے جھوٹے اَفسانے سنانے میں سَرا سر نقصان ہی نقصان ہے، کیونکہ ایسی مجالس میں بیٹھ کر اپنی زبان کو فضول باتوں،غیبتوں ،چغلیوں اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے بچانااِنتہائی دُشوار ہو جاتا ہے ۔اگر کبھی مجبوراًایسی مجلسوں میں بیٹھنا پڑجائے توان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیےاورجھوٹ بولنے کے بجائے سچائی سے کام لینا چاہیے،ہمارے بزرگانِ دِین کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لیتے بلکہ سچ بات کہتے اگرچہ سامنے والے کو کڑوی لگتی،چنانچہ
حضرتِ سیِّدُنا طاؤس رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ خلیفۂ وقت ہَشّام کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: ہشّام !کیسے ہو؟اس نے غُصّے سے کہا :آپ نے مجھے”امیرُ المؤمنین “کہہ کر مخاطب کیوں نہیں کیا؟ فرمایا: اس لئے کہ تمام مسلمان تمہاری خِلافت سے مُتَّفِق نہیں ہیں،لہٰذا میں ڈرا کہ تمہیں امیرُالمؤمنین کہنا کہیں جھوٹ نہ ٹھہرے۔اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد حُجَّۃُ الْاِسۡلَام حضرتِ سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:لہٰذا جو آدمی اس قَدَرکَھرا اور صاف گو ہو اوراس قسم کی باتوں(مَثَلاً غیبتوں ، چغلیوں ، ریاکاریوں،خود پسندیوں، خوشامدوں وغیرہ وغیرہ )سے بچ سکتا ہو، وہ بے شک لوگوں میں مِل جُل کر رہے، ورنہ اپنا نام مُنافِقوں کی فِہرست میں لکھوانے پر راضی ہو جائے۔ (احیاء العلوم ،۲ /۲۸۷)