Book Name:Jhoot ki Badboo
بھی نہ کھانا اورجھوٹ بھی بولنا دُنیا و آخرت دونوں کا خسارہ ہے۔ بعض تکلف کرنے والے ایسا کیا کرتے ہیں اور بہت سے دیہاتی اِس قسم کی عادت رکھتے ہیں کہ جب تک اُن سے بار بار نہ کہا جائے، کھانے سے اِنکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خواہش نہیں ہے، جھوٹ بولنے سے بچنا ضروری ہے ۔(بہارِ شریعت،۳/۳۷۲،حصہ:۱۶)مشہورمفسرِ قرآن،حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے، مگر دِلی اِرادے سے بُلائے جھوٹی تواضع نہ کرےاور آنے والا بھی جھوٹ بول کر یہ نہ کہے کہ مجھے خواہش نہیں تاکہ بھوک اور جھوٹ کا اِجتماع نہ ہوجائے، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے : بَارَکَ اللہ ( یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ برکت دے)۔ ( مر آۃالمناجیح،۳/۲۰۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یادرکھئے!جھوٹ بہت بُری بیماری ہے،اس جھوٹ سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اوراپنی اولاد کی بھی ایسی مدنی تربیت کرنی ہے کہ یہ بھی بچپن سے ہی اس گناہِ کبیرہ سے واقف ہوں،ان کو پتہ ہوکہ جھوٹ کیا ہوتاہے،سچ بولنے کی کیا کیا برکتیں ہیں،جھوٹ بولنے کے کیا کیا نقصانات ہیں،عمومی طورپر دیکھاجاتا ہے کہ کئی معاملات میں ہم اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت نہیں کر پاتے،کیونکہ اس طرف توجہ بہت کم ہوتی ہے،بلکہ بسااوقات تو ایسابھی ہوتا ہے کہ جھوٹ کے معاملے میں گویاہم اُس کی غلط تربیت کر رہے ہوتے ہیں،ذہن میں سُوال اُبھرتا ہے،وہ کیسے؟جی ہاں! سُنیے کیسے؟کبھی دروازے پردَستک ہوتی ہے،گھرپرموجود ہونے کے باوجودبھی کسی بچے کویہ کہہ کربھیج دِیاجاتا ہے کہ بیٹا کہنا:"ابوگھر نہیں ہیں"،بِلا وجہ بچے کی اسکول سے چھٹیاں ہونے کی صورت میں جب ٹیچررابطہ کرتے ہوں گےتوجواب دِیا جاتاہوگا کہ ہمارابچہ اِتنے دِنوں سے بیمارہے،حالانکہ چھٹیاں کسی