Book Name:Aala Hazrat Ka Ishq-e-Rasool
سیرت کے چند ایمان افروز گوشے اورکچھ مدنی پھول سننے کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ دُوسری بار حج کے لئے حاضِر ہوئے تو مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں نبیِ رَحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زِیارت کی آرزو لئے روضۂ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے،مگر پہلی رات قسمت میں یہ سَعادت نہ تھی۔ اِس موقع پر وہ معروف نعتیہ غَزل لکھی، جس کے مَطْلَع (یعنی پہلے شعر)میں دامنِ رحمت سے وابستگی کی اُمّید دِکھائی ہے:
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
شعر کی وضاحت:اے بہار جُھوم جا کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے۔وہ دیکھ!مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسُوئے لالہ زار یعنی جانِب گُلزار تشریف لا رہے ہیں۔
مَقْطَع(یعنی آخر ی شعر جس میں شاعر کا تَخَلُّص آتا ہے)میں بارگاہِ رسالت میں اپنی عاجِزی اوربے مایَگی (بے ۔ما۔یَہ۔گی یعنی مسکینی)کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے کہ،
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شَیْدا ہزار پھرتے ہیں
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مِصْرَعِ ثانی(دوسرےمِصْرَع)میں بطورِ عاجزی اپنے لئے”کُتّے “کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے، مگر اَدَباً یہاں ”شَیْدا“لکھ دِیا ہے(جس کا مطلب ہے عاشق)۔
شعر کی وضاحت:اِس مَقْطَع میں عاشِقِ ماہِ رِسالت،سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کمال انکساری(نہایت عاجزی) کا اِظہار کرتے ہوئے اپنے آپ سے فرماتے ہیں:اے احمد رضا!تُو کیا اور تیری