Zindgi Ka Maqsad

Book Name:Zindgi Ka Maqsad

رونے کی آواز سُنی اور شب بیداری دیکھی تو کہا:اے بیٹے! (تیرا رونا تو ایسا ہے کہ) شاید تُو نے کسی کو قتل کیا ہو؟حضرت سیِّدُنا ربیع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کی:جی ہاں، اے امی جان! (ایساہی ہے) میں نے کسی کو قتل کیا ہے۔والدہ نے پوچھا:وہ مقتول کون ہے؟ کہ اس کے وُرَثا سے سفارش کی جائے تاکہ وہ تمہیں معاف کردیں۔ اللّٰہ پاک  کی قسم! اگر اس مقتول کے ورثاء کو تمہاری آہ وزاری اور شب بیداری کرنا معلوم ہوجائے تووہ تم پر رحم کرتے ہوئے ضرور تمہیں معاف کردیں۔عرض کی: امی جان!وہ مقتول کوئی اور نہیں بلکہ میرا نفس ہے۔( اللہ  والوں کی باتیں،۲/۱۸۳ تا ۱۸۵ملتقطاً)

مِری زِندگی بس تِری بندگی میں

ہی اے کاش گُزرے سدا یااِلٰہی

(وسائلِ بخشش،ص:۱۰۶)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے عاشقانِ اولیا!اس میں کوئی شک نہیں اپنی زندگی کے مقصد کو پانے کے لیے اولیائے کرام  کا طرزِ زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، یہ وہ لوگ تھے جو رِضائے الٰہی کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتے، یہ وہ لوگ تھے جو دنیا سے دُور رہ کر آخرت کی تیاری کرتے، یہ وہ لوگ تھے جو دنیا میں رہتے تو تھے مگر دنیا کے ہوتے نہیں تھے، یہ وہ لوگ تھےجو علم وعمل کے پیکر تھے،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی عملی زندگی سے ہمیں سبق دیا ہے کہ ایک مسلمان دنیا کو آخرت کی کھیتی کس طرح بنا سکتا ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی مدنی سوچ اور مدنی کردار کے ذریعے ثابت کیا کہ ایک مسلمان کو دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے۔ اگرہم انہیں اپنا آئیڈیل بنا لیں تو مقصدِ حیات کو پانا کافی آسان ہو سکتا ہے۔

تذکرۂ مَلِکُ العلماء