Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam
عطا فرمائےگا تو اسے میں بیت المقدس کے لیے وقف کر دوں گی۔([1])اس دور میں بیت المقدس کی خدمت کے لیے لڑکے وَقف کئے جاتے تھے، لڑکیاں وقف نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ بچے بالغ ہونے تک وہاں کی خدمت کرتے، بالغ ہونے کے بعد وہ چاہتے تو اسی طرح رہتے اور اگر چاہتے تو دنیا کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے تھے۔( [2]) شب وروز گزرتے رہے پھر ایک دن وہ پُرمَسَرَّت گھڑی بھی آ پہنچی جب حضرت حَنَّہ رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَاکے ہاں بیٹی کی وِلادت ہوئی، یہ ان کے لیے بڑی خوشی کا موقع تھا مگر چونکہ بیٹے کی امید پر یہ اسے بَیْتُ المقدس کی خدمت کے لیے وَقْف کرنے کی نذر مان چکی تھیں اور اب خِلَافِ اُمّید لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کے باعِث نذر پوری ہونا بَظاہِر ناممکن ہو گیا تھا، حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا نے اس بچی کا نام رکھا اور چونکہ آپ اسے بَیْتُ المقدس میں رکھنے کی نِیَّت کر چکی تھیں اس لیے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر بَیْتُ المقدس کی طرف چل دیں۔بَیتُ المقدس میں اس وقت چار ہزار خُدَّام رہتے تھے اور ان کے سردار ستائیس(27) یا ستر (70) تھے۔ جن کے امیر حضرت زَکَرِیَّا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔([3]) حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا اپنی بیٹی کو لے کر جب یہاں پہنچیں تو اسے یہاں کے عُلَماء کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا: یہ میری بیٹی ہے جسے میں نے (اللہ پاک کی عِبَادت اور بَیْتُ المقدس کی خدمت کے لیے) آزاد (یعنی وَقْف) کر دیا ہے۔ اگرچہ لڑکیاں اس خدمت کی صلاحیت نہیں رکھتیں مگر (چونکہ میں اسے وَقْف کر چکی ہوں اس لیے) میں اسے لوٹا کر گھر بھی نہیں لے جا سکتی لہٰذا آپ حضرات میری یہ نذر قبول فرما لیجئے۔([4]) ان