Book Name:Siddiq K Liay Khuda Aur Rasool Bus
البتہ اب تک ہر سورت ایک جدا صحیفے میں تھی اور وہ صحیفے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی حیات تک آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس ہی رہے ، ان کے بعد امیرُ المومنین حضرت عُمر فارُوْقرَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور ان کے بعد ان کی صاحبزادی (Daughter)اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کے پاس رہے ۔
عرب میں چونکہ بہت سے قبیلے رہتے تھے اورہر قوم اور قبیلے کی زبان کے بعض الفاظ کاتلفظ (Pronunciation)اور لہجے مختلف تھے اور پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُبارَک زمانے میں قرآنِ عظیم نیا نیا اترا تھا اور ہر قوم و قبیلہ کو اپنے مادری لہجے اور پرانی عادات کو یکدم بدلنا دشوار تھا، اس لئے اللہ پاک کے حکم سے ان پر یہ آسانی فرما دی گئی تھی کہ عرب میں رہنے والی ہر قوم اپنی طرز اور لہجے میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرے اگرچہ قرآنِ مجید’’لغتِ قریش‘‘ پر نازل ہوا تھا ۔ زمانَۂ نبوّت کے بعد چند مختلف قوموں کے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ بات جم گئی کہ جس لہجے اور لغت میں ہم پڑھتے ہیں اسی میں قرآنِ کریم نازل ہوا ہے ، اس طرح کوئی کہنے لگا کہ قرآن اس لہجہ میں ہے اور کوئی کہنے لگا نہیں بلکہ دوسرے لہجے میں ہے یہاں تک کہ امیرُ المومنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے زمانے میں یہ نوبت آگئی کہ لوگ اس معاملے میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے ۔ جب امیرُ المومنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کواس بات کی خبر پہنچی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا:ابھی سے تم میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے تو آئندہ تم سے کیا امید ہے ؟ چُنانچہ امیرُ المومنین حضرت علیُّ المرتضیٰ اور دیگر اکابر صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی اتفاقِ رائے سے یہ طے پایا کہ پوری