Book Name:Achi Aur Buri Mout
پیارے آقا ، دو عالم کے داتا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : جیسے تم کسی گمشدہ شخص کے آجانے سے خوش ہوتے ہو ایسے ہی مسلمان رُوْحیں اس نئی آنے والی مسلمان رُوح کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں ، وہ اس سے سُوال کرتی ہیں : فُلاں کیسا ہے؟ فلاں کیا کرتا ہے؟ پھر وہ رُوحیں کہتی ہیں : اسے کچھ دیر کے لئے چھوڑ دو یہ دُنیا کے غم میں تھا (یعنی ابھی یہ دُنیوی تکالیف سے اور نزع کی کیفیات سے گزر کر آیا ہے ، اسے کچھ دیر آرام کرنے دو([1])) ، پھر یہ نئی آنے والی رُوْح کہتی ہے : فُلاں بھی وفات پا گیا تھا ، کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ مسلمان رُوحیں کہتی ہیں : وہ تو ہاوِیَہ میں گیا([2])(یعنی وہ کافِر ہو کر مرا ، لہٰذا کافِر رُوْحوں کے مقام میں ہے)۔
سرکارِ ذی وقار ، ہم بےکسوں کے مددگار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مزید ارشاد فرمایا : بےشک کافِر کی جب موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس (دوزخ کا) ٹا ٹ لے کر آتے ہیں ، کہتے ہیں : (اے رُوْح) نکل ! تُو رَبّ سے ناراض ، رَبّ تجھ سے ناراض ، اللہ پاک کے عذاب کی طرف چل ، تو کافر کی رُوْح مردار کی سخت بدبُو کی طرح نکلتی ہے حتی کہ اسے زمین کے دروازے (یعنی مقامِ سِجِّین میں جہاں کافِروں کی رُوحیں قید ہوتی ہیں ، ([3]) وہاں) لاتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ کیسی سخت بدبُو ہے ، پھر اسے کافِروں کی رُوْحوں کے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ ([4])
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سُنّی مرے یُوں نہ فرمائیں ترے شاہِد کہ وہ فاجِر گیا