Book Name:Jannat Mein Aaqa Ka Parosi
سے کم پر بالکل راضی نہیں ہوں، مجھے صِرْف جنّت نہیں بلکہ جنّت میں آپ کا پڑوس ہی چاہئے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے اسے مزید سمجھایا مگر وہ اپنی بات پر پکّی تھی، اس پر اللہ پاک نے وحی بھیجی اور فرمایا: اے موسیٰ! آپ کا کیا نقصان ہے...!! جو مانگتی ہے دے دیجئے! چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے اس کی مانگ پُوری فرمائی اور حضرت یوسُف عَلَیْہِ السَّلام کا جَسَدِ مُبَارَک لے کر روانہ ہو گئے۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہے مانگنے کا طریقہ...!! بڑھیا کی سوچ دیکھئے! خِدْمت کتنی سی ہے اور سُوال کتنا بڑا کر رہی ہے...!! اس روایت سے ہمیں 2 باتیں سیکھنے کو ملیں: (1):ایک بات تو اُن اَعْرابی رَضِیَ اللہ عنہ کے عَمَل سے سیکھنے کو ملی، وہ صحابی تھے، انہوں نے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے دُنیوی چیزیں مانگیں اور آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اس پر انکار نہیں فرمایا،اس سے معلوم ہوا؛ دُنیا کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں(Minor Wishes) ہوں، ضرورتیں (Necessities)ہوں، ہم وہ بھی بارگاہِ رسالت سے مانگ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں (2):دوسری بات یہ پتا چلی کہ ہمارے آقا و مولیٰ، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم بھی چاہتے ہیں کہ ہم جنّت میں آقا کے پڑوس کے طلبگار بنیں۔دیکھئے! اُن اعرابی رَضِیَ اللہ عنہ نے جو کچھ مانگا، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے وہ بھی انہیں عطا فرما دیا مگر ساتھ ہی بنی اسرائیل کی بڑھیا کا واقعہ بیان فرما کر یہ ترغیب بھی دِلا دی کہ جب مانگنا ہو تو وہ مانگا کرو جو بنی اسرائیل کی بڑھیا نے مانگا تھا بلکہ ایک روایت میں ہے، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: اَعَجَزْتُمْ اَنْ تَکُوْنُوْا مِثْلَ عَجُوْزِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل یعنی کیا تم یہ نہیں کر سکتے کہ بنی اسرائیل کی بُڑھیا جیسے ہو جاؤ! ([2])