Book Name:Jannat Mein Aaqa Ka Parosi
اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَر ساری کثرت پاتے یہ ہیں
رَبّ ہے مُعْطِی، یہ ہیں قاسِم رِزْق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
بارگاہِ رسالت سے کیا مانگ سکتے ہیں
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت رَبِیعَہ رَضِیَ اللہ عنہ کے واقعہ سے دُوسری بات یہ سیکھنے کو ملی کہ بارگاہِ رسالت میں مانگنے سے شرم، جھجک(Hesitation) نہیں ہونی چاہئے، یہ دُنیا کے بادشاہ اور امیر کبیر ہوتے ہیں کہ جہاں منگتے کو مانگتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے، مانگتے ہوئے بھی ڈر لگتا کہ یہ مانگ لُوں تو یہ دے پائے گا کہ نہیں، فُلاں چیز مانگوں تو کہیں ناراض (Angry) ہی نہ ہو جائے۔
دَرِ مصطفےٰ سب سے بڑا سخی دربار ہے۔ یہاں مانگتے ہوئے جھجکنا نہیں پڑتا، شرمانا نہیں ہوتا، یہ خوف نہیں ہوتا کہ یہ چیز مانگوں تو مل بھی سکے گی کہ نہیں بلکہ
مانگ مَن مانتی، مُنْہ مانگی مُرادَیں لے گا
نہ یہاں نا ہے، نہ منگتا سے یہ کہنا، کیا ہے؟([1])
دیکھئے! حضرت رَبِیعَہ رَضِیَ اللہ عنہ نے مانگا، بےجھجک مانگا او ر کیا کیا مانگا؟ایمان پر خاتمہ مانگا (کیونکہ جس کا ایمان پر خاتمہ نہ ہو، وہ جنت میں جا ہی نہیں سکتا)، نیکیوں کی توفیق مانگی (کیونکہ جنّت میں داخِلہ اللہ پاک کی رحمت سے ملتا ہے مگر وہاں بلند درجات نیک اعمال کے مطابق ملتے ہیں)، روزِ قیامت اَعْمال کی قبولیت مانگی (کہ جس کے اعمال قبول ہی نہ ہوں، رَدّکردئیے جائیں، وہ جنّت میں بلند مقام کیسے پا سکے گا)، پِھر جنّت میں بہت اُونچا مرتبہ بھی مانگا اور اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے یہ سب کچھ اپنے صحابی رَضِیَ اللہ عنہ کو عطا فرما دیا، اس سے معلوم