Faizan e Syeda Khatoon e Jannat

Book Name:Faizan e Syeda Khatoon e Jannat

اَصْل میں ”فَقْر“ صُوفیائے کرام کی ایک اِصْطلاح ہے، اس کا معنی ہوتا ہے: مَا سِوَ اللہ (یعنی اللہ پاک کے عِلاوہ ہرچیز) سے بےنیاز ہو جانا۔حضرت ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر کسی کو دُنیا کی تمام دولت مِل جائے اور وہ اسے ایک ہی دِن میں صدقہ وخیرات کر دے، پھر اس کے دِل میں یہ خیال آجائے کہ کاش! چند روپے اپنے لئے رکھ لیتا تو ایسا شخص ”فَقْر“ میں سچا نہیں ہے۔ 

حضرت ابوعلی دَقَّاقرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خِدْمت میں ایک حقیقی فقیر آیا، اس نے ٹاٹ کا لباس پہنا ہوا تھا، حضرت ابوعلی دَقَّاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے ایک شاگرد نے یُوں ہی خوش طبعی کرتے ہوئے اس فقیر کو کہا: یہ ٹاٹ کتنے کا خریدا ہے؟ اب سنیئے! اَصْل فَقْر کیا ہو تا ہے، وہ فقیر بولا: یہ ٹاٹ میں نے دُنیا کے بدلے خریدا ہے اور مجھے کہا گیا کہ آخرت کے بدلے بیچ ڈالو تو میں نے اسے فروخت نہیں کیا۔ 

مطلب یہ کہ میں نے یہ ٹاٹ رِضائے الٰہی کے لئے پہنا ہے، اب اس کے بدلے دُنیا تو کیا جنّت بھی ملے تو راضِی نہیں ہوں کیونکہ مجھے جنّت بنانے والا اللہ پاک چاہئے۔([1])  

یہ ہے اَصْل فَقْر، یہ فَقْر جب بندے کو  نصیب ہو جائے تو ”خیرخواہئ مسلم“ کا جذبہ بھی خود بخود دِل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اسی معنی کے لحاظ سے ”فَقْر“ میں کمال رکھنے والی خاتون تھیں۔

سلطان الفقر حضرت شیخ سلطان باہو رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: فَقْرکے انتہائی درجے پر پہنچ کر آدمی ”فَنَا فِی اللہ“ ہوجاتا ہے،پھر حالت یہ ہوتی ہے کہ ” لَایَحْتَاجُ اِلیٰ رَبِّہٖ وَلَا اِلیٰ


 

 



[1]...رسالہ قشیریہ، صفحہ:480۔