اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
احکامِ
روزہ([1])
دُ رُود شریف کی فضیلت:
حضرت
سَیِّدُنا شیخ اَحمد بن منصور عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَفُور جب فوت ہوئے تواہل
شیراز میں سے کسی نے خواب میں دیکھا کہ سر پر موتیوں والا تاج سجائے، بہترین حلہ (یعنی
جنتی جوڑا) زیبِ تن کئے وہ شیراز کی جامع مسجد کی
محراب میں کھڑے ہیں ۔ خواب دیکھنے والے نے حال دریافت کیا تو فرمایا: ’’ اللّٰہتَعَالٰی نے
مجھے بخشا، کرم فرمایا اور تاج پہنا کر جنت میں داخل کیا ۔ ‘‘ پوچھا: کس سبب
سے؟فرمایا: ’’میں تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کثرت سے دُرُوْدِ پاک پڑھا کر تا تھا
یہی عمل کام آگیا۔‘‘ (القولُ الْبَدِیْع
ص۲۵۴)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ تَبارَکَ
وَ تَعَالٰی کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اُس نے ہم پر ماہِ رَمَضانُ
المبارَک کے روزے فرض کرکے
ہمارے لئے سامانِ تقویٰ فراہم کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّپارہ2 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی
آیت نمبر183تا 184
میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ
الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ
كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ
عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ
خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)
ترجَمَۂ
کنزالایمان:
اے ایمان والو! تم پر ر وزے فَرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں
تمہیں پرہیز گاری ملے، گنتی کے دن ہیں تو تم میں جوکوئی بیمار یا سفر میں ہو تو
اتنے روزے اور دِنوں میں اور جنہیں اِس کی طاقت نہ ہو وہ بدلے میں ایک مسکین کا
کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا
تمہارے لئے زیادہ بَھلا ہے اگر تم جانو۔
روزہ بڑی پرانی عبادت ہے:
آیت
کریمہ کے ابتدائی حصّے کے تحت ’’تَفْسِیرِ خازِن‘‘ میں ہے: تم سے پہلے
لوگوں سے مراد یہ ہے: حضرت سَیِّدُنا آدَم صَفِیُّ
اللہ عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامسے حضرت سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ
عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامتک جتنے انبیائے کرام عَلَيْهمُِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلام تشریف
لائے اور ان کی اُمتیں آئیں ان پر روزے
فرض ہوتے چلے آئے ہیں (مگر اُس کی صورت ہمارے روزوں سے مختلف
تھی)۔ مطلب یہ ہے کہ روزہ بڑی پرانی عبادت ہے
اور گزشتہ اُمتوں میں کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری طرح روزے فرض نہ کیے ہوں ۔(تفسیرِ خازن
ج۱ص۱۱۹ مُلَخَّصاً) اور’’
تفسیر عزیزی‘‘ میں ہے : حضرت سَیِّدُنا
آدَم صَفِیُّ اللہ عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامپر
ہر مہینے کے ایامِ بِیْض( یعنی چاند کی13، 14،15تاریخ )
کے تین روزے فرض تھے۔اور یہود(یعنی حضرت سَیِّدُنا موسیٰ کلیمُ
اللہ عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم )پر
یومِ عاشورا(
یعنی 10 محرَّمُ الْحرام
کے دن) اور ہر ہفتے میں ہفتے کے دن(Saturday)
کا اورکچھ اور دنوں کے روزے فرض تھے اور نصاریٰ پر ماہِ رمضان کے روزے فرض تھے۔ (تفسیرِ عزیزی
ج۱ص۷۷۱)
روزے کا مقصد:
مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ’’ تفسیرِ صِراطُ الْجِنان‘‘ جلد 1 صفحہ 290 پرہے :’’آیت
کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں
چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا
ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق(Practice)
ہوتی ہے جس سے ضبط نفس(نفس پر قابو)
اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو وہ
بنیادی چیز ہے جس کے ذَرِیعے آدَمی گناہوں سے رکتا ہے۔‘‘
روزہ کس پر فرض ہے:
توحیدو
رِسالت کا اِقرارکرنے اور تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعدجس طرح ہر
مسلمان پر نماز فرض قراردی گئی ہے اسی طرح رَمضان
شریف کے روزے
بھی ہر مسلمان (مرد وعورت ) عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔’’دُرِّمُخْتار‘‘میں ہے:ر وزے10شعبانُ الْمُعَظَّم 2
ھ کو
فرض ہوئے۔(دُرِّمُخْتار و رَدُّالْمُحْتار
ج۳ص۳۸۳)
روزہ فرض ہونے کی وجہ:
اِسلام
میں اکثر اَعمال کسی نہ کسی رُوح پرور واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر کئے گئے
ہیں ۔ مثلاً صفا و مروَہ کے درمیان حاجیوں کی
سعی حضرت سَیِّدَتناہاجرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہا کی یاد گار ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا
اپنے لخت جگر حضرت سَیِّدُنا اِسماعیل ذَبِیحُ اللہ عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکیلئے
پانی تلاش کرنے کیلئے اِ ن دونوں پہاڑوں کے
درمیان سات بار چلی اور دَوڑی تھیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حضرت سیِّدَتُنا ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی
یہ ادا پسند آگئی ، لہٰذا اِسی ادائے
ہاجرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللہ
عَزَّوَجَلَّ نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے صفا و مروہ کی سعی واجب
فرمادی۔اِسی طرح ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں سے کچھ دن ہمارے
پیارے سرکار ، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غارِ حرا میں گزار ے تھے، اِس
دَوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتے تھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن دِنوں کی یا د تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اُس
کے محبوب صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت قائم رہے ۔
’’نبی ‘‘ کے تین حروف کی نسبت سے انبیائے کرام کے عَلَیْہِم السَّلَام
روزوں کے متعلق 3 فرامین مصطفٰے صلَّی اللہ تَعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
{۱} (حضرت) آدَم صَفِیُّ
اللّٰہ(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)نے
(چاند
کی) 13، 14،15
تاریخ کے روزے رکھے۔ (کنزالعُمّال
ج۸ص۲۵۸حدیث۲۴۱۸۸) {۲} صَامَ
نُوْحٌ الدَّہْرَ اِلَّا یَوْمَ الْفِطْرِ وَیَوْمَ الْاَضْحٰی۔
یعنی(حضرتِ) نوح نَجِیُّ
اللہ (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) عیدالفطر
اور عیدالاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔ (ابن ماجہ
ج۲
ص ۳۳۳
حدیث ۱۷۱۴ ) {۳} (حضرتِ)
داو‘د(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلام) ایک دن چھوڑ کرایک دن
روزہ رکھتے تھے۔ (مسلم ص ۵۸۴ حدیث ۱۱۵۹ ) اور (حضرتِ)سلیمان(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)تین
دن مہینے کے شروع میں ،تین دن درمیان میں اور تین دن آخر میں (یعنی اس ترتیب سے
مہینے میں 9دن) روزہ
رکھا کرتے تھے۔ اور حضرت عیسیٰ روحُ
اللّٰہعَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامہمیشہ روزہ رکھتے تھے کبھی نہ
چھوڑتے تھے۔ (ابنِ
عَساکِر ج۲۴ص۴۸)
روزہ دار کا ایمان کتنا پختہ ہے!:
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! سخت گرمی ہے،پیاس سے حلق سوکھ رہا ہے
،ہونٹ خشک
ہورہے ہیں،پانی موجود ہے مگر روزہ دار اُس کی طرف دیکھتا تک نہیں ، کھانا موجود ہے
بھوک کی شدت سے حالت دِگر گوں ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا۔ آپ اندازہ فرمائیے! اِس مسلمان کاخدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ پر
کتنا پختہ ایمان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اِس کی حرکت ساری
دُنیا سے تو چھپ سکتی ہے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پوشیدہ نہیں رَہ
سکتی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ پراِس
کا یہ یقین کامل روزے کا عملی نتیجہ ہے، کیونکہ دُوسری عبادتیں کسی نہ کسی ظاہری
حرکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تعلق باطن سے ہے، اِس کاحال اللہ
عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی نہیں جانتا
اگر وہ چھپ کر کھاپی لے تب بھی لوگ تو یہی سمجھتے رہیں گے کہ یہ روزہ دار ہے، مگر
محض خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے باعث وہ کھانے پینے
سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے۔
بچے کو کب روزہ رکھوایا جائے؟:
میرے
آقااعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت مجددِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے
ہیں : ’’بچہ جیسے ہی آٹھویں سال میں قدم رکھے (اس کے)
ولی
( یعنی سرپرست )پر لازِم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے
اور جب گیارھواں سال شروع ہو توولی ( یعنی سرپرست )پر
واجب ہے کہ صوم وصلوٰۃ (نماز نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے )پر
مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر (یعنی نقصان)نہ
کرے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ج۱۰ص۳۴۵ ))
فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیفرماتے
ہیں : بچہ کی عمر دس سا ل کی ہو جائے اور (گیارھویں میں قدم رکھ
دے اور)اُس میں روزہ
رکھنے کی طاقت ہو تو اُس سے رَمَضانُ الْمبارَک
میں روزہ
رکھوایا جائے ۔ اگر پوری طاقت ہونے کے باوجود نہ رکھے تو مار کر رکھوائیے اگر رکھ
کر توڑ دیا تو قضا کا حُکم نہ دیں گے اور نماز توڑدے تو پھر پڑھوائیے۔
(رَدُّالْمُحْتار
ج۳ ص۴۴۲)
اعلٰی حضرت کو والد صاحب نے خواب میں فرمایا: (حکایت)
’’ملفوظات اعلٰی حضرت‘‘صفحہ206
پر میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنا خواب ارشاد
فرماتے ہیں : ابھی چند سال ہوئے ماہِ رجب میں
حضرت والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ
خواب میں تشریف لائے او ر مجھ سے فرمایا: ’’اب کی رمضان میں مرض شدید ہوگا روزہ نہ
چھوڑنا ۔‘‘ ویسا ہی ہوا اور ہر چند طبیب وغیرہ نے کہا( مگر)میں
نے بِحَمْدِ
اللہ تعالٰی روزہ نہ چھوڑا اور اسی کی بر کت نے بِفَضْلِہٖ تَعالٰی
شفا دی کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے: صُوْمُوْا تَصِحُّوْا
یعنی
روزہ رکھو تندرست ہوجاؤگے۔(مُعجَم اَوسط
ج۶
ص۱۴۷
حدیث ۸۳۱۲)
روزے سے صحت ملتی ہے:
امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ
مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضٰی
شیر خدا کَرَّمَ
اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے
مروی ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے
پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کا فرمانِ صحت نشان ہے: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَامکی طرف وَحی فرمائی کہ
آپ اپنی قوم کو خبر دیجئے کہ جو بھی بندہ میری رِضا کیلئے
ایک دن کا روزہ
رکھتا ہے تو میں اُس کے جسم کو صحت
بھی عنایت فرماتا ہوں اور اس کو عظیم اَجر بھی دو ں گا۔‘‘(شُعَبُ الایمان
ج۳
ص۴۱۲حدیث۳۹۲۳)
معدے کا ورم:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ ّاحادیث
مبارکہ سے مستفاد (مُسْ۔ تَ ۔ فاد) ہوا کہ
روزہ اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ حصولِ صحت
کا بھی ذَرِیعہ ہے۔اب تو سائنسدان بھی اپنی تحقیقات میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے
لگے ہیں ۔ جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسرمورپالڈ (MOORE
PALID) کہتا
ہے : ’’میں اسلامی علوم پڑھ رہا تھا جب روزوں
کے بارے میں پڑھا تو اُچھل پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کوکیسا عظیم الشان نسخہ
دیا ہے! مجھے بھی شوق ہوا، لہٰذا میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنے شروع
کردئیے ۔ عرصۂ دراز سے میرے معدے پرورم تھا،
کچھ ہی دِنوں کے بعد مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی میں روزے رکھتا رہا یہاں تک کہ
ایک مہینے میں میرا مرض بالکل ختم
ہوگیا!‘‘
حیرت انگیز انکشافات:
ہالینڈکاپادری
ایلف گال(ALF GAAL) کہتا ہے: میں نے
شوگر،
دل اور معدے کے مریضوں کو مسلسل 30
دن روزے رکھوائے،
نَتیجتاً شوگر
والوں کی شوگر کنڑول ہوگئی ، دِل کے
مریضوں کی گھبرا ہٹ اور سانس کا پھولنا کم ہو ا اور معدے
کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ایک
انگریز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund
Freud) کا بیان ہے،
روزے سے جسمانی کھچاؤ،ذِ ہنی ڈِپریشن
اورنفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں کی تحقیقاتی ٹیم:
ایک
اخباری رپورٹ کے مطابق جرمنی،اِنگلینڈ اور امریکہ کے ماہر ڈاکٹروں کی تحقیقاتی ٹیم
رَمَضانُ
الْمبارَک میں پاکستان آئی اور اُنہوں نے بابُ
المدینہ کراچی ، مرکز الاولیا لاہور اور
دِیارِ محدثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم
سردار آباد(فیصل
آباد پنجاب پاکستان)کا انتخاب کیا ۔ جائزہ (Survey)
کے بعد اُنہوں نے یہ رپورٹ پیش کی: چونکہ
مسلمان نماز پڑھتے اور رَمَضانُ الْمبارَک میں اس کی زیادہ
پابندی کرتے ہیں اس لیے وُضو کرنے سے ناک،کان اور گلے کے اَمراض میں کمی واقِع
ہوجاتی ہے،نیز مسلمان روزے کے باعث کم کھاتے ہیں لہٰذا معدے، جگر، دل اور اَعصاب (یعنی پٹھوں ) کے اَمراض میں کم مبتلا ہوتے ہیں ۔
خوب ڈٹ کر کھانے سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں :
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو!فِیْ نَفْسِہٖ
روزے سے
کوئی بیمار نہیں ہوتا بلکہ سحری و اِفطاری میں بے اِحتیاطیوں اور بدپرہیزیوں کے
سبب نیزدونوں وَقت خوب مُرَغّن(یعنی
تیل ،گھی والی ) اور تلی ہوئی غذاؤں کے اِستعمال اور
رات بھر وقتاً فوقتاً کھاتے پیتے رہنے سے روزہ دار بیمار ہوجاتا ہے، لہٰذا سحری
اور اِفطار کے وَقت کھانے پینے میں اِحتیاط برتنی چاہئے، رات کے دَوران پیٹ میں
غذا کا اتنا زیادہ بھی ذخیرہ نہ کرلیا جائے کہ دن بھر ڈَکاریں آتی رہیں اور روزے
میں بھوک پیاس کا اِحساس ہی نہ رہے، اگر بھوک پیاس کا اِحساس ہی
نہ رہا تو پھر روزے کا لطف ہی کیا ہے! دیکھا جائے تو ایک طرح سے
روزے کا مزا ہی اِس بات میں ہے کہ سخت گرمی
ہو ، شدتِ پیاس سے لب سوکھ گئے ہوں اور بھوک سے خوب نڈھال ہوچکے ہوں ایسے میں کاش!مدینۂ
منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی
میٹھی میٹھی گرمی اور ٹھنڈی ٹھنڈی دُھوپ کی یاد تازہ ہو اور اے کاش! کربلا کے تپتے
ہوئے صحرا اور گلستانِ نبوت کے مہکتے ہوئے نوشگفتہ پھولوں ، تین دن کی بھوک پیاس
سے تڑپتے بلکتے ’’حقیقی وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھوکے پیاسے مظلوم شہزادوں کی یاد
تڑپانے لگے ،اور جس وَقت بھوک پیاس کچھ زیادہ ہی ستائے اُس وَقت تسلیم ورِضا کے
پیکر ، مدینے کے تاجور، نبیوں کے سروَر، محبوبِ داور صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے شکم اَطہر
پر بندھے ہوئے بامقدر پتھر بھی یا د آجائیں تو کیا کہنے! لہٰذا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی روزے تو ایسے ہونے چاہئیں کہ ہم اپنے آقاؤں
اور سرکاروں کی حسین یادوں میں گم ہو جائیں ۔
کیسے آقاؤں کا ہوں
بندہ رضاؔ
بول بالے مری سرکاروں
کے (حدائقِ
بخشش شریف ص۳۶۰)
بغیر آپریشن کے ولادت ہوگئی:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!روزے
کی نورانیت اور روحانیت پانے اور مَدَنی ذِہن بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی
کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جایئے اور سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں
عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر کی سعادت حاصل کیجئے۔ سُبحٰن اللہ عَزَّوَجَلَّ!دعوتِ
اسلامی کے مَدَنی ماحول ، سنّتوں بھرے اجتماعات اور مَدَنی قافلوں کی بھی کیا خوب
مَدَنی بہاریں اور برکتیں ہیں !غالباً 1998ء کا
واقعہ ہے، حیدر آباد ( بابُ الاسلام سندھ پاکستان)
کے ایک اسلامی بھائی کی اہلیہ امید سے تھیں ، دن بھی ’’پورے‘‘ ہو گئے تھے، ڈاکٹر
کا کہنا تھا کہ شاید آپریشن کرنا پڑ ے گا۔تبلیغِ قراٰن وسنت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کا
بین الاقوامی تین روزہ سنتوں بھرا اجتماع (صحرائے
مدینہ، ملتان) کا وقت قریب تھا ۔ اجتماع کے بعد سنتوں کی تربیت
کے ایک ماہ کے مَدَنی قافلے
میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ سفر کی اُن اسلامی بھائی کی نیت تھی۔ اجتماع میں حاضری
کیلئے روانگی کے وقت، سامانِ قافلہ ساتھ لے کراَسپتال پہنچے، چونکہ خاندان کے دیگر
افراد تعاون کیلئے موجود تھے، اہلیۂ محترمہ نے اشک بار آنکھوں سے انہیں سنتوں
بھرے اجتماع
( ملتان) کیلئے الوداع کیا۔ ان کا ذِہن یہ بنا
ہوا تھا کہ اب تو بین الاقوامی سنتوں بھرے اجتماع اور پھر وہاں سے ایک ماہ کے مَدَنی
قافلے میں ضرور سفر کرنا ہے کہ کاش! اس کی
بَرَکت سے عافیت کے ساتھ وِلادت ہو جائے۔بے چارے غریب تھے ، ان کے پاس تو
آپریشن کے
اَخراجات بھی نہیں تھے! بہر حال وہ مدینۃ الاولیا ملتان شریف
حاضر ہو گئے۔ سنتوں بھرے اجتماع میں خوب دعائیں مانگیں ۔ اجتماع کی اِختتامی رِقت
انگیز دُعا کے بعد انہوں نے گھر پرفون کیا تو ان کی
امی جان نے فرمایا: مبارک ہو! گزشتہ رات رب کائنات عَزَّوَجَلَّنے
بغیر آپریشن کے تمہیں چاند سی مَدَنی منی عطا فرمائی ہے۔ انہوں نے خوشی سے جھومتے ہوئے عرض کی: امی جان !
میرے لئے کیا حکم ہے؟ آجاؤں یا ایک ماہ کیلئے مَدَنی قافلے کا مسافر بنوں ؟ امی
جان نے فرمایا: ’’بیٹا !بے فکر ہو کر
مَدَنی قافلے میں سفر کرو۔‘‘ اپنی مَدَنی منیکی
زیارت کی حسرت دل میں دبائے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہ ایک ماہ کے مَدَنی
قافلے میں عاشقانِ رسول کے
ساتھ روانہ ہوگئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی قافلے میں سفر
کی نیت کی بَرَکت سے ان کی مشکل آسان ہو گئی تھی۔
مَدَنی قافلوں کی مَدَنی بہاروں کی بَرَکت کے سبب گھر
والوں کا بہت زبردست مَدَنی ذِہن بن گیا، اُن اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میرے
بچوں کی امی کا کہنا ہے: جب آپ مَدَنی
قافلے کے
مسافر ہوتے ہیں میں بچوں سمیت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہوں ۔
زچہ کی خیر ہو، بچہ
بالخیر ہو اُٹھئے ہمّت
کریں ، قافِلے میں چلو
بیوی بچے سبھی،خوب
پائیں خوشی خیریت سے
رہیں ، قافِلے میں چلو
(وسائل بخشش ص۶۷۴،۶۷۵)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزے کی جزا:
حضرت
سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ
سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون ومکان، رحمت عالمیان صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
فرماتے ہیں : ’’آدَمی
کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے،اللہ
عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ
لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔ یعنی
سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جَزا میں خود دوں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مزید ارشاد ہے: بندہ اپنی خواہش اور
کھانے کو صرف میری وَجہ سے تَرک کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک
اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کے وَقت، روزہ دار کے منہ کی
بو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ (مسلِم ص۵۸۰حدیث۱۱۵۱)
مزید
ارشاد ہے: روزہ سپر (یعنی ڈھال) ہے
اور جب کسی کے روزہ کا
دِن ہو تو نہ بے ہودہ بکے اور نہ ہی چیخے، پھر اگر کوئی اورشخص اِس سے گالم گلوچ
کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دے : ’’میں روزہ دا رہوں ۔‘‘
( بُخاری ج۱ص۶۲۴حدیث۱۸۹۴)
روزہ کا خصوصی اِنعام:
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ اَحادیث مبارکہ میں روزے
کی کئی خصوصیات ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔ کتنی پیاری بشارت ہے اُس روزہ دار کے لئے
جس نے اِس طرح روزہ رکھا
جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے۔یعنی کھانے پینے اور جماع
سے بچنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اَعضاء کو بھی گناہوں سے باز رکھا تو وہ روزہ اللہ
عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم سے اُس
کیلئے تمام پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گیا۔اور حدیث مبارک کا یہ فرمانِ عالیشان تو
خاص طور پر قابل توجہ ہے جیسا کہ سرکارِنامدار صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے پروردگار
عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ خوشگوار
سناتے ہیں : ’’فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْبِہٖ۔‘‘ یعنی روزہ میرے لئے ہے
اور اِس کی جزا میں خود ہی دُوں گا ۔ حدیث قدسی کے اِس ارشادِ پاک کو بعض علمائے کرامرَحِمَہُمُ
اللہُ السَّلامْنے ، ’’اَنَا اُجْزٰی بِہٖ‘‘ بھی پڑھا ہے جیسا کہ مِراٰۃُ المناجیح وغیرہ میں ہے تو پھر معنٰی یہ ہوں گے:’’ روزے کی جَزا میں خود ہی ہوں ۔‘‘
سُبحٰن اللہ عَزَّوَجَلَّ
! یعنی روزہ
رکھ کر روزہ دار بذاتِ خود اللہ تَبارَکَ وَ
تَعَالٰی ہی کو پالیتا ہے۔
نیک اعمال کی جزا جنت ہے:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قراٰنِ
کریم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو اچھے اَعمال کرے
گا اُسے جنت ملے گی۔ چنانچہ اللہ تَبارَکَ وَ
تَعَالٰی پارہ 30
سُوْرَۃُ الْبَیِّنَہ کی آیت نمبر 7
اور8 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِؕ(۷) جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ
تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ۠(۸)
ترجَمۂ
کنزالایمان:بے شک جو ایما ن لائے
اور اچھے کام کئے وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں ۔اُن کا صِلہ اُن کے ربّ کے پاس
بسنے کے باغ ہیں ،جن کے نیچے نہریں بہیں ،اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں ۔ اللہ
اُن
سے راضی اور وہ اُس سے راضی۔ یہ اُس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔
غیر صحابی کے لیے’’رضی
اللہ تعالٰی عنہ‘‘ کہنا کیسا؟:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یہ بات بالکل غلط ہے کہ ’’
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ‘‘کہنا لکھنا صرف صحابی کے نام
کیساتھ مخصوص ہے۔پیش کردہ آیات کے اِس آخری حصے رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ
خَشِیَ رَبَّهٗ۠(۸)(ترجَمۂ
کنزالایمان: اللہ (عَزَّوَجَلَّ)اُن
سے راضی اور وہ اُس سے راضی، یہ اُس کیلئے ہے جو اپنے ربّ (عَزَّوَجَلَّ)سے
ڈرے)نے اِس عوامی غلط فہمی
کو جڑ سے اُکھاڑ دیا! خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ رکھنے والے ہر مومن خواہ وہ صحابی ہو یا غیر
صحابی سب کیلئے یہ بشارتِ عظمی ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو بھی اللہ
عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا ہے وہ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا
عَنْهُؕکے زُمرے میں داخل ہے، بے شک
ہر صحابی اور وَلی کے لئے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لکھنا اور بولنا بالکل دُرُست و جائز ہے۔
جس نے ایمان کے ساتھ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں سرکار
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی ایک لمحہ بھر بھی صحبت پائی یا دیکھا اوراس کا ایمان پر خاتمہ ہوا وہ
صحابی ہے ۔ بڑے سے بڑا ولی، صحابی
کے مرتبے کو نہیں پاسکتا، ہر صحابی عادِل
اور جنتی ہے۔
مجھے موتیوں والا چاہیے:
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ’’رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ‘‘ کی بات بھی ضمْناً زیر بحث آگئی، اب
اصل موضوع پر آتے ہیں : نماز،حج ،زکوٰۃ ، غربا کی اِمداد ، بیماروں کی عِیادت، مساکین
کی خبر گیری وغیرہ تمام اَعمالِ خیر سے جنت ملتی ہے، مگر
روزہ وہ عبادت ہے جس سے جنت والا یعنی خود
مالک حقیقی عَزَّوَجَلَّ
ہی مِل جاتا ہے۔کہتے ہیں : ایک
مرتبہ محمود غزنویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللہِ القَوِی کے کچھ قیمتی موتی اپنے افسران کےسامنے
بکھر گئے فرمایا: ’’چن لیجئے!‘‘ اور خود آگے چل دئیے۔تھوڑی دُور جانے کے بعد مڑکر
دیکھا تو اَیاز گھوڑے پر سُوار پیچھے چلاآرہا ہے۔پوچھا: اَیاز
!کیا تجھے مَوتی نہیں چاہئیں ؟ ایاز نے عرض کی: ’’عالی جاہ!جو موتیوں کے طالب تھے وہ
موتی چن رہے ہیں ،مجھے تو موتی نہیں بلکہ موتیوں والا چاہیے۔‘‘ (بوستانِ سعدی ص۱۱۰ مُلَخّصاً)
ہم رسولُ اللہ (صلَّی
اللہ تَعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے
جنت رسولُ اللہ (صلَّی
اللہ تَعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی
اِس
سلسلے میں ایک حدیث مبارَک بھی مُلاحظہ فرمائیے:حضرتِ سَیِّدُنا رَبِیعہ بن کعب اَسْلَمی رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں : میں رات حضور، سراپا نور،فیض گَنجور، شاہِ غیور
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں گزارتا تھاتو میں آپ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس وُضوکا پانی اور آپ کی ضرورت کی چیزیں (جیسے مسواک) لے
کر حاضر ہوا تو رَحمۃٌ لِّلْعٰلَمِین
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا: سَلْ!
یعنی
مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے عرض کی: اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃ،
یعنی سرکار
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنَّت
میں آپ کی رَفاقت (یعنی پڑوس) چاہئے۔ (گویا عَرض
کررہے ہیں :)
تجھ
سے تجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جائے
سو
سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
(دریائے رَحمت مزیدجوش میں آیا) اور فرمایا: ’’اَوَ
غَیْرَ ذٰلِکَ؟ یعنی
کچھ اور مانگنا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی:
’’بس صرف یہی۔‘‘ ؎
تجھ سے تجھی کو مانگ کر مانگ لی ساری کائنات
مجھ
سا کوئی گدا نہیں ،تجھ سا کوئی سخی نہیں
(جب حضرتِ سَیِّدُنا
رَبِیعہ بِن کعب اَسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ جنت کی رَفاقت (پڑوس)
طلب کرچکے اور مزید کسی حاجت کے طلب کرنے سے اِنکار کر دیا) تو
اِس پر سرکارِ نامدار، بِاِذنِپروَردگار دوعالم کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’فَاَعِنِّیْ
عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد‘‘
یعنی ا پنے نفس پر کثرتِ سُجُود(
یعنی زِیادہ نوافل) سے میری مدد کر۔( مسلم ص۲۵۳ حدیث ۴۸۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جو چاہو مانگ لو!
سُبْحٰنَ اللہِ! سُبْحٰنَ اللہِ! سُبْحٰنَ اللہِ!
اِس حدیثِ مبارَک نے تو ایمان ہی تازہ کردیا ۔ حضرت سَیِّدُنا شیخ عبد الحق محدث
دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے
ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کا بلاکسی تَقْیِیْد
وتَخْصِیص مُطْلَقاً فرمانا: سَلْ؟
یعنی مانگ کیا مانگتا ہے؟اِس بات کو ظاہِر کرتا ہے کہ سارے ہی مُعاملات سرورِ
کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے مبارَک ہاتھ میں ہیں ،جو چاہیں جس کو چاہیں اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ
کے حکم سے عطا کردیں ۔علامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قصیدۂ بردہ شریف میں
فرماتے ہیں : ؎
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ
الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ
عُلُوْمِکَ عَلْمَ اللَّوْح ِوَالْقَلَمِ
یعنی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! دُنیااور
آخرت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ ہی
کے جود وسخاوت کا حصہ ہے اورلوح وقلم کا علم تو آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے علومِ مبارَکہ کا ایک حصہ ہے۔ ؎
اگر
خیریت دُنیا و عقبی آرزو داری
بَدرگاہش
بیادِ ہر چِہ من خواہی تمنا کن
یعنی دُنیا وآخرت کی
خیر چاہتے ہو تو اِس آستانِ عرش نشان پر آؤ اور جو چاہو مانگ لو! (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج
۱
ص ۴۲۴
،۴۲۵
وغیرہ )
خالِقِ کل نے آپ کو
مالک کل بنا دیا
دونوں جہان دے دئیے
قبضہ و اِختیار میں
’’رَمَضَانُ الْکَرِیْم‘‘ کے
گیارہ حروف کی نسبت سے روزے کے فضائل سے متعلق11فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
جنتی دروازہ:
{۱}بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان
کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل
نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی
اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے
گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ (بُخاری ج۱ص۶۲۵حدیث۱۸۹۶)
سابقہ گناہوں کا کفارہ:
{۲}جس نے رَمضان کا روزہ
رکھا
اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا
چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔ (الاحسان بترتیب صحیح
ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)
جہنم سے 70سال کی مسافت دُور:
{۳}جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ
رکھا
اللہ عَزَّوَجَلَّ
اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت دور کردے گا۔
( بُخاری ج۲ص۲۶۵حدیث۲۸۴۰)
ایک روزے کی فضیلت:
{۴}جس نے ایک دن کا روز ہ اللہ
عَزَّوَجَلَّ
کی رِضا حاصِل کرنے کیلئے رکھا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ
اُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع
کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکر مَرجائے۔ ( ابو یعلٰی ج۱ ص۳۸۳حدیث۹۱۷)
سرخ یاقوت کا مکان:
{۵}جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس
کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷۶۸)
جسم کی زکٰوۃ:
{۶}ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ
روزہ
ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔
(
ابنِ ماجہ ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵)
سونا بھی عبادت ہے:
{۷}روزہ دار کا سونا عبادت اور ا س کی
خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قبول او را س کا عمل مقبول ہوتا ہے ۔(شُعَبُ
الْایمان ج۳
ص۴۱۵حدیث۳۹۳۸)
اَعضا کا تسبیح کرنا:
{۸}جو بندہ روزے
کی حالت میں صبح کرتا ہے، اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اسکے
اَعضا تسبیح
کرتے ہیں اور آسمانِ دُنیا پر رَہنے والے (فرشتے) اس کے لئے سورج ڈوبنے تک
مغفرت
کی دُعا کرتے رہتے ہیں ۔اگر وہ ایک یادورَکْعتیں
پڑھتا
ہے تویہ آسمانوں میں اس کے لئے نوربن جاتی ہیں اور
حورِعین (یعنی بڑی آنکھوں والی حوروں )میں
سے اُس کی بیویاں کہتی ہیں : اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!تو
اس کو ہمارے پاس بھیج دے ہم اس کے دیدار کی بہت زِیادہ مشتاق ہیں ۔اور اگر وہ لَااِلٰہَ اِلاَّ
اللہُ یا سُبْحَا نَ اللہِ یا اَللہُ
اَکْبَرُ
پڑھتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اُ س کا ثواب سورج ڈوبنے تک لکھتے رہتے ہیں ۔
(ایضاً ص۲۹۹حدیث۳۵۹۱ )
جنتی پھل:
{۹}جس کو روزے نے کھانے یا پینے سے روک دیا
کہ جس کی اسے خواہش تھی تو اللہ تَعَالٰی اسے جنتی پھلوں میں
سے کھلائے گا اور جنتی شراب سے سیراب کرے گا۔ (ایضاً
ص۴۱۰حدیث۳۹۱۷ )
سونے کا دستر خوان:
{۱۰}قیامت والے دن روزہ داروں کیلئے ایک
سونے کا دستر خوان رکھا جائے گا ، جس سے وہ کھائیں گے حالانکہ لوگ
(حساب کتا ب کے) مُنتظِر
ہوں گے۔ (کَنْزُ
الْعُمّال ج۸ص۲۱۴حدیث۲۳۶۴۰)
سات قسم کے اعمال:
{۱۱} ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکے
نزدیک اعمال سات قسم پر ہیں ، دو عمل واجب کرنے والے ،دو عملوں کی جزا ان کی مثل
،ایک عمل کی جزا اپنے سے دس گنا ، ایک عمل
کی سات سوگنا تک اور ایک عمل ایسا ہے کہ اس کا ثواب اللہ تَعَالٰی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔پس جو دو واجب
کرنے والے ہیں {۱}وہ شخص جو اللہ عَزَّوَجَلَّسے
اِس حال میں ملا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی
عِبادت اِخْلاص کے ساتھ اس طرح کی کہ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا تو اس کیلئے
جنت واجب ہوگئی {۲}اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّسے
اس حال میں ملا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کیلئے دوزخ واجب ہوگئی۔اور
جس نے ایک گناہ کیا تو اس کی مثل (یعنی ایک ہی گناہ کی )
جزا پائے گا اورجس نے صرف نیکی کا ارادہ کیا تو ایک نیکی کی جزا پائے گا۔اور جس نے
نیکی کرلی تووہ دس (
نیکیوں کا اجر)
پائے گا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی
راہ میں اپنا مال خرچ کیاتو اس کے خرچ کئے ہوئے ایک دِرہم کو سات سو دِرہم اور ایک
دینار کو سات سو دینار میں بڑھا دیا جائے گا اور روزہ اللہ تَعَالٰی کیلئے ہے اس کے رکھنے والے کا ثواب اللہ
عَزَّوَجَلَّکے
علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ (شُعَبُ الایمان
ج۳ص۲۹۸حدیث۳۵۸۹ )
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! جس کا ایمان پر خاتمہ ہوگا وہ یا تواللہ
عَزَّوَجَلَّکی
رَحمت سے بے حساب یا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ گناہوں کا عذاب ہواتب بھی بالآخر یقینا
داخل جنت ہوگا ۔ اور جس کا (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)خاتمہ
کفر پر ہوا وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔جس نے ایک گناہ کیا اُس کو ایک ہی گناہ
کا بدلہ ملے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکی
رَحمت کے قربان! صرف نیکی کی نیت
کرنے پر ایک نیکی کا ثواب اوراگر نیکی کرلی تو ثواب دس گنا،راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنے والے کو سات سو گنا اور
روزہ دار کی بھی کتنی زبردست عظمت ہے کہ اس کے
ثواب کواللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کوئی نہیں جانتا۔
بے حساب اجر:
حضرت
سَیِّدُنا کعب الاحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں :
’’بروزِقیامت ایک منادی اس طرح ندا کر ے گا ،ہر بونے والے (
یعنی عمل کرنے والے)کو اس کی کھیتی (یعنی
عمل) کے برابر اَجر دیا جائے گا سوائے قراٰن
والوں (
یعنی عالم قراٰن) اور روزہ داروں کے کہ انہیں بے حد و بے حساب اَجر
دیا جا ئے گا ۔ ‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۴۱۳حدیث۳۹۲۸)
یرقان سے صحت مل گئی:
روزوں
کی برکتوں کو دو بالا کرنے اور اپنے
باطِن میں علمِ دین سے اُجالا کرنے کیلئے تبلیغ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی
تحریک، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول
کو اپنا لیجئے۔ اپنی اِصلاح کی خاطرمکتبۃُ المدینہ
سے مَدَنی انعامات
کا رسالہ لے کر پر کر کے ہر مَدَنی ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے یہاں کے
دعوت اسلامی کے ذمے دار کو جمع کروا یئے اور سنتوں
کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں
عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر کرنا اپنا معمول بنایئے ،مَدَنی
قافلے کی بھی کیا خوب مَدَنی
بہاریں ہیں ! 1994ء
کی بات ہے، زم زم نگر (حیدر آباد، بابُ الاسلام سندھ، پاکستان) کے
ایک اسلامی بھائی کے بچوں کی امی کایرقان
کافی بڑھ چکا تھا اور وہ بابُ المدینہ کراچی کے اندر اپنے میکے میں زیر علاج تھیں
۔ اُن
اسلامی بھائی نے 63دن کیلئے مَدَنی قافلے میں
سفر اختیار کیا اور اس ضمن میں با بُ المدینہ کراچی تشریف لائے، فون پر گھر پر
رابطہ کیا، طبیعت کافی تشویشناک تھی، بلوربن (Bilirubin)تشویشناک
حد تک بڑھ چکا تھا تقریباً 25گلوکوز
کی ڈرِپیں لگانے کے باوجود خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا تھا۔ انہوں نے اُن کو تسلی دیتے
ہوئے کہا: اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ
میں مَدَنی قافلے کا مسافر
ہوں ، عاشِقانِ رسول کیصُحبتیں میسر
ہیں ، اِنْ
شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّمَدَنی قافلے کی برکت
سے سب بہتر ہو جائے گا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے برابر رابطہ رکھا ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ روز بروز صحت بہتر ہوتی جارہی تھی۔
پانچویں دن باب المدینہ سے آگے سفر درپیش تھا، انہوں نے جب فون کیا توانہیں یہ خبر فرحت
اثر سننے کو ملی: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بلوربن کی رپورٹ
نارمل آگئی ہے اور ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّکا شکر ادا کرتے ہوئے
وہ خوشی خوشی عاشقانِ رسول کے
ہمر اہ مَدَنی قافلے میں مزید آگے سفر پر روانہ ہوگئے۔
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
جہاں روزہ رکھنے کے بے شمار فضائل ہیں وَہیں بغیر کسی صحیح مجبوری کے رَمَضانُ الْمبارَک
کا روزہ
ترک کرنے پر سخت وَعیدیں بھی ہیں ۔رَمضان شریف
کاایک بھی روزہ جو بلا کسی عذرِ شرعی جان بوجھ کر ضائِع کردے تواب عمر بھر بھی اگر
روزے رکھتا رہے تب بھی اُس چھوڑے ہوئے ایک روزے کی فضیلت نہیں پاسکتا۔ چنانچہ
ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان:
حضرتسیِّدُنا
ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
سے روایت ہے ،سرکارِ والا تبار، بِاِذْنِپروردگار
دو جہاں کے مالک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: ’’جس نے رَمضان
کے ایک دن کا روزہ بغیر رُخصت وبغیر مرض
اِفطار کیا (یعنی نہ رکھا)توزمانے بھر کا روزہ
بھی
اُس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے ۔‘‘ (تِرمذی ج۲ص۱۷۵حدیث۷۲۳) یعنی وہ فضیلت جو رَمَضانُ الْمبارَکمیں
روزہ رکھنے کی تھی اب کسی طرح نہیں پاسکتا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۵ مُلَخّصاً)
اُلٹے لٹکے ہوئے لوگ:
جو
لوگ روزہ
رکھ کر بغیر کسی صحیح مجبوری کے توڑ ڈالتے ہیں وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے قہرو غضب
سے خوب ڈریں ۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا اَبوامامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں ، میں نے سرکارِ مدینہ، صاحب معطر
پسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے سنا : ’’ میں سویا ہواتھا تو خواب میں دو شخص میرے پاس آئے اور
مجھے ایک دُشوار گزار پہاڑ پر لے گئے، جب میں پہاڑ کے درمیانی حصے پر پہنچا تو
وہاں بڑی سخت آوازیں آرہی تھیں ، میں نے کہا: ’’یہ کیسی آوازیں ہیں ؟‘‘ تو مجھے
بتایا گیا کہ یہ جہنمیوں کی آوازیں ہیں ۔پھر مجھے اور آگے
لے جایا گیا تو میں کچھ ایسے لوگوں
کے پاس سے گزرا کہ اُن کو اُن کے ٹخنوں کی رَگوں میں باندھ کر (اُلٹا) لٹکایا
گیا تھا اور اُن لوگوں کے جبڑے پھاڑ دئیے گئے تھے جن سے خون بہ رہا تھا،
تو میں نے پوچھا: ’’ یہ کون لوگ ہیں ؟‘‘تو مجھے بتایا گیا کہ ’’یہ لوگ
روزہ اِفطار
کرتے تھے قبل اِس کے کہ روزہ اِفطار
کرنا حلال ہو۔ ‘‘
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۹ص۲۸۶حدیث۷۴۴۸)
میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! رَمضان کا
روزہ بلا اجازتِ شرعی توڑ دینا بہت بڑا گناہ
ہے۔وَقت سے پہلے اِفطار کرنے سے مراد یہ ہے کہ
روزہ تو رکھ لیا مگر سورج غروب ہونے سے پہلے
پہلے جان بوجھ کر کسی صحیح مجبوری کے بغیر توڑ ڈالا ۔اس حدیثِ پاک میں جو عذاب
بیان کیا گیا ہے وہ روزہ رکھ کر توڑ دینے والے کیلئے ہے اور جو
بِلا عذرِ شرعی روزۂ رَمضان
ترک کر دیتا ہے وہ بھی سخت گنہگار اورعذابِ نار کا حقدار ہے۔ اللہ
عَزَّوَجَلَّاپنے
پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے طفیل ہمیں اپنے قہرو غضب سے بچائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تین بدبخت:
حضرتسَیِّدُنا
جابر بن عبد
اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہُما
سے مروی ہے ،تاجدارِ مدینۂ منوّرہ،
سلطانِ مکۂ مکرمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کا فرمانِ باقرینہ ہے: ’’جس نے
ماہِ رَمضان
کو پایا اورا س کے روزے نہ رکھے وہ شخص شقی
(یعنی بد بخت) ہے،
جس نے اپنے والدین یا کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا وہ بھی شقی
(یعنی بدبخت )ہے اور جس کے پاس میرا
ذِکر ہوا اور اُس نے مجھ پر دُرُود نہ پڑھا وہ بھی شقی (یعنی
بد بخت)
ہے۔‘‘
(مُعجَم اَوسَط ج۲ص۶۲حدیث۳۸۷۱)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ناک مٹی میں مل جائے:
حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اُس
شخص کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس میرا ذِکر کیاگیا تو اُس نے میرے اوپر
دُرُود نہیں پڑھااوراُس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے جس پر رَمضان کا مہینا داخل
ہوا پھر اُس کی مغفرت ہونےسے قبل گزر گیا اور اس آدمی کی ناک مٹی میں مل جائے کہ
جس کے پاس اس کے والدین نے بڑھاپے کو پالیا اور اس کے والدین نے اس کو جنت میں
داخل نہیں کیا۔‘‘ (یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت
حاصل نہ کر سکا) (مسنداحمد
ج۳ص۶۱حدیث۷۴۵۵)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزے کے تین دَرَجے:
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ
دار قصداً کھانے پینے اورجماع سے باز رہے ۔تاہم
روزے کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے تاکہ حقیقی
معنوں میں ہم روزہ کی برکتیں حاصِل کرسکیں ۔ چنانچہ روزے کے تین دَرَجے ہیں :
(۱) عوام کا روزہ (۲)خَواص
کا روزہ (۳) اَخَصُّ
الْخَواص کا روزہ
(۱) عوام کا روزہ:
روزے
کے لغوی معنٰی ہیں :’’رُکنا‘‘لہٰذا شریعت کی اِصطلاح میں صبح صادِق سے لے کر غروب
آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے ’’رُکے رہنے‘‘کو روزہ کہتے
ہیں اور یہی عوام
یعنی عام لوگوں کا روزہ ہے۔
(۲)خَواص کا روزہ:
کھانے
پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اَعضا کو برائیوں سے
’’روکنا‘‘خَوَاص یعنی خاص لوگوں کا
روزہ ہے۔
(۳) اَخَصُّ الْخَواص کا روزہ:
اپنے
آپ کو تمام تر اُمور سے ’’روک‘‘ کر صرف اور صرف اللہ
عَزَّوَجَلَّکی
طرف مُتَوَجِّہ
ہونا، یہ اَخَصُّ الْخوَاص یعنی
خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۶۶ مُلَخَّصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
ضرورت اِس اَمرکی ہے کہ کھانے پینے وغیرہ سے ’’رُکے رہنے ‘‘کے ساتھ ساتھ اپنے تمام
تر اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے۔
داتا صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا اِرشاد:
حضرت سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ
رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے
ہیں : ’’روزے کی حقیقت رُکنا‘‘ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مَثَلاً معدے
کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ
کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ
انگیز باتیں کرنے اور جسم
کو حکم الٰہی عَزَّوَجَلَّکی
مخالفت سے روکے رکھناروزہ
ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً
روزہ دار ہوگا۔‘‘
(کَشْفُ
الْمَحْجُوب ص۳۵۴،۳۵۳)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزہ رکھ کر بھی گناہ توبہ! توبہ!:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا
را! اپنے حالِ زار پر ترس کھایئے اور غور فرمایئے! کہ روزہ دار ماہِ
رَمَضانُ المُبارَک میں دن کے وَقت
کھانا پینا چھوڑدیتا ہے حالانکہ یہ کھانا پینا اِس سے پہلے دِن میں بھی بِالکل جائز تھا، اب خود ہی سوچ لیجئے کہ
جو چیزیں رَمضان شریف سے پہلے حلال تھیں وہ بھی جب اِس مبارَک مہینے کے مقدس دِنوں
میں منع کردی گئیں تو جو چیزیں رَمَضانُ المبارَک سے پہلے بھی حرام تھیں ، مَثَلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، بد
گمانی، گالم گلوچ، فلمیں ڈرامے، گانے باجے، بد نگاہی، داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے
گھٹانا، والدین کو ستانا،
لوگوں کا دل دُکھانا وغیرہ وہ رَمَضانُ
المبارَک میں کیوں نہ اور بھی
زیادہ حرام ہوجائیں گی! روزہ دار جب رَمَضانُ المبارَک میں حلال وطیب کھانا پینا چھوڑدیتا
ہے،حرام کام کیوں نہ چھوڑے؟ اب فرمائیے !
جو شخص
پاک اور حلال کھانا پینا تو چھوڑ دے لیکن حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام
بدستور جاری رکھے وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟
اللہ عَزَّوَجَلَّ کو
کچھ حاجت نہیں :
یاد رکھئے! نبیوں کے سلطان،
سرورِ ذیشان، محبوبِ رَحْمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نشان ہے:
’’جو
بری بات کہنا اور اُ س پر عمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ عَزَّوَجَلَّکو
اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (بُخاری
ج۱ص۶۲۸حدیث۱۹۰۳)
حضرت
عَلَّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
البَارِیاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :بُری
بات سے مُرادہر ناجائز گفتگو ہے جیسے جھوٹ، بہتان، غیبت، تہمت، گالی، لعن طعن
وغیرہ جن سے بچنا ضروری ہے ۔(مِرقاۃ
المفاتیح ج ۴ص۴۹۱) ایک اور مقام پر فرمانِ
مصطفٰے صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:
’’صِرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لَغْو
اور بے ہُودہ باتوں ( یعنی وہ بات جس کے کرنے میں مَعاصی (
یعنی نافرمانی)
ہے اُس) سے بچا جائے ۔‘‘(المُستَدرَک ج ۲ ص ۶۷ حدیث ۱۶۱۱ )
میں روزہ دار ہوں :
حضور سراپا
نور صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: تم
سے اگر کوئی لڑائی کرے، گالی دے تو تم اُس سے کہہ دو کہ میں
روزے سے ہوں ۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب
ج۱ص۸۷حدیث۱)
اعضا کے روزوں کی تعریف:
اَعضا
کا روزہ یعنی’’ جسم کے تمام حصوں کو گناہوں سے
بچانا۔‘‘یہ صرف روزوں
ہی کیلئے مخصوص نہیں ، بلکہ پوری زندگی
اِن اَعضا کو گناہوں سے بچانا ضروری ہے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ ہمارے دِلوں میں
خوب خوفِ
خدا عَزَّوَجَلَّ
پیدا ہوجائے۔آہ! قیامت کے اُس ہوشربا
منظر کو یاد کیجئے جب ہر طرف ’’نفسی نفسی ‘‘ کا عالم ہوگا، سورج آگ برسا رہا ہوگا،
زَبانیں شدتِ پیاس کے سبب منہ سے باہر نکل پڑی ہوں گی، بیوی شوہر سے، ماں اپنے لخت
جگر سے اور باپ اپنے نورِ نظرسے نظربچا رہا ہوگا، مجرموں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا
ہوگا، اُن کے منہ پرمہر ماردی جائے گی اور اُن کے اَعضا اُن کے گناہوں کی داستان
سنارہے ہوں گے جس کا ’’ سُوْرَۃُ یٰسٓ ‘‘ کی آیت نمبر 65
میں یوں تذکرہ کیاگیا ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ
وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:آج ہم اِن کے مونہوں
پر مہر کردیں گے اور ن
کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔
آہ
!اے کمزور وناتواں اسلامی بھائیو!قیامت کے اُس کڑے وَقت
سے اپنے دِل کو ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے اَعضائے بَدَن کومعصیت (یعنی
نافرمانی ) سے باز رکھئے۔ اب اَعضا کے روزے کی
تفصیلات پیش کی جاتی ہیں :
آنکھ کا روزہ:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
آنکھ کا روزہ اِس طرح رکھنا چاہئے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تو صرف اورصرف جائز اُمور
ہی کی طرف اُٹھے۔آنکھ سے مسجِد دیکھئے، قراٰنِ کریم دیکھئے ،مزاراتِ اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی
کی زیارت کیجئے ،علمائے کرام،مشائخِ عظام
اور اللہ تَبارَکَ وَ
تَعَالٰی کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے ،اللہ
عَزَّوَجَلَّدِکھائے
تو کعبۂ مُعَظَّمہ کے اَنوار دیکھئے ، مکّۂ مُکرّمہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی مہکی مہکی گلیاں اور
وہاں کے وادی و کہسار دیکھئے، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے دَرودیوار دیکھئے،
سبز سبز گنبدومینار دیکھئے ، میٹھے میٹھے مدینے کے صحرا و گلزار دیکھئے ، سنہری
جالیوں کے اَنوار دیکھئے ، جنت کی پیاری پیاری کیاری کی بہار دیکھئے۔ تاجدارِ اہل
سنت حضور مفتی ٔاَعظم ہند سَیِّدُنا محمد مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنخدائے
حنان و منانعَزَّوَجَلَّکی
بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض کرتے ہیں : ؎
کچھ ایسا کر دے مِرے
کرد گار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے
رُو ئے یار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس
کام کی ہیں یہ آنکھیں کہ
دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
( سامانِ بخشش شریف)
پیارے
روزہ دارو! آنکھ کا روزہ رکھئے اور ضرور رکھئے بلکہ
آنکھ کا روزہ تو ڈبل بارہ گھنٹے ،تیسوں دِن اور بارہ
مہینے ہونا چائیے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکی
عطا کردہ آنکھوں سے
ہرگز ہرگز فلمیں
نہ دیکھئے ،ڈرامے
نہ دیکھئے ،نامحرم
عورَتوں کو نہ دیکھئے، شہوت کے ساتھ
اَمردوں کو نہ دیکھئے ،کِسی کا کھلا ہوا ستر
نہ دیکھئے ، بلکہ بہتر یہ ہے کہ بلا ضرورت اپنا کھلا ہوا ستربھی
مت دیکھئے ،اللہ عَزَّوَجَلَّکی یاد سے غافل کرنے والے کھیل تماشے مَثَلاً ریچھ اور بند ر کا ناچ وغیرہ نہ
دیکھئے
( ان کو نچانا اور ان کا ناچ دیکھنا دونوں کام ناجائز ہیں ) کرکٹ
،کبڈی ،فٹ بال ،ہاکی ، تاش ، شطرنج ،وِڈیوگیمز ،ٹیبل فٹ بال وغیرہ
وغیرہ
کھیل نہ دیکھئے ۔(جب دیکھنے کی اِجازت نہیں تو کھیلنے کی اِجازت کس طرح ہوسکتی
ہے؟اور اِن میں بعض کھیل تَو ایسے ہیں جو نیکر یا چڈی پہن کر کھیلے جاتے ہیں جس کی
وجہ سے گھٹنے بلکہ مَعَاذَ اللہ
عَزَّوَجَلَّرانیں
تک کھلی رہتی ہیں اور اِس طرح دُوسروں کے آگے رانیں یا گھٹنے کھولے رہنا گناہ ہے
اور دُوسروں کو اِس طرف نظر کرنا بھی گناہ) کسی
کے گھر میں بے اِجازت نہ جھانکئے ،کسی کا خط یا
چٹھی یا ڈائری کی تحریرشرعی اجازت کے بغیر نہ دیکھئے ،یاد
رکھئے ! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:
’’جو اپنے بھائی کا خط بغیر
اجازت دیکھتا ہے گویا وہ آگ میں دیکھتا ہے۔‘‘ (المُسْتَدْرَک
ج۵ص۳۸۴حدیث۷۷۷۹)
اٹھے نہ آ نکھ کبھی
بھی گناہ کی جانب عطا کر م سے
ہوایسی ہمیں حیا یارب!
کسی کی خامیاں دیکھیں
نہ میری آ نکھیں اور سنیں نہ کان
بھی عیبوں کا تذکرہ یا رب
دکھا دے ایک جھلک سبز
سبز گنبد کی بس ان کے جلووں میں آجائے
پھر قضا یا رب (وسائل
بخشش ص۸۳،۸۷ )
کان کا روزہ:
کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صرف و صرف جائز باتیں سنیں ۔ مَثَلاً کانوں سے
تلاوت و نعت سنئے، سنتوں بھرے بیانات سُنئے، اچھی بات،
اَذان و اِقامت سنئے، سن کر جواب دیجئے،ہرگز ہرگز گانے باجے اور موسیقی نہ سُنئے،
جھوٹے چٹکلے نہ سنئے ،کسی کی غیبت نہ سنئے ،کسی کی چغلی نہ سنئے ،کسی کے عیب نہ
سنئے اور جب دو آدمی چھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ سنئے۔فرمانِ
مصطَفٰے صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:
جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنے
حالانکہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوں یا اس بات کو چھپانا چاہتے ہوں تو قیامت کے
دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ( بُخاری ج۴ ص ۴۲۳حدیث ۷۰۴۲)
سنوں نہ فحش کلامی نہ
غیبت و چغلی تری پسند کی باتیں فقط
سنا یا رب (وسائل
بخشش ص۸۷ )
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
زبان کا روزہ:
زَبان
کا روزہ یہ ہے کہ
زَبان صرف و صرف نیک وجائز باتوں کیلئے ہی
حرکت میں آئے۔ مَثَلاً زَبان سے تلاوتِ قراٰن کیجئے، ذِکر و دُرُود کا
وِرْد کیجئے۔ نعت شریف پڑھئے، درس دیجئے،سنتوں بھرا بیان کیجئے ،نیکی کی دعوت
دیجئے، اچھی اور پیاری پیاری دینداری والی باتیں کیجئے۔ فضول ’’بک بک‘‘ سے بچتے رہئے۔
خبردار! گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت ، چغلی وغیرہ سے
زَبان ناپاک نہ ہونے پائے کہ ’’چمچہ اگر نجاست
سے آلودہ ہوگیا تو دو ایک گلاس پانی سے پاک ہوجائے گا مگر
زَبان بے حَیائی کی باتوں سے ناپاک ہوگئی
تواِسے سات سمندر بھی نہیں دھوسکیں گے۔‘‘
زَبان کی بے احتیاطی کی تباہ کاریاں :
حضرتِ سَیِّدُنا
اَنس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
سے رِوایت ہے، سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکوایک
دِن روزہ
رکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا: ’’جب تک میں اِجازت نہ دوں ،تم میں سے
کوئی بھی اِفطار نہ کرے۔‘‘ لوگوں نے روزہ
رکھا۔ جب شام ہوئی تو تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانایک
ایک کرکے حاضر خدمت بابرکت ہوکر عرض کرتے رہے: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!
میں روزے سے رہا ، اِجازت دیجئے تاکہ روزہ
کھول دُوں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اُسے اِجازت مرحمت فرما دیتے۔ ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
نے حاضر ہوکرعرض کی: آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! دوعورَتوں نے روزہ
رکھا اور وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی خدمت بابرکت میں آنے سے حیا محسوس کرتی ہیں ، اُنہیں اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ
کھول لیں ۔ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب،
مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے رُخِ انور
پھیر لیا ، اُنہوں نے پھرعرض کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر چہرئہ انور
پھیرلیا، اُنہوں نے پھر یہی بات دُہرا ئی آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے پھر چہرئہ انور پھیرلیا وہ پھر یہی با ت دُہرانے لگے آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے پھر رُخِ انورپھیرلیا، پھررَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے(غیب کی خبر دیتے
ہوئے) ارشاد فرمایا: ’’اُن
دونوں نے روزہ نہیں رکھا وہ کیسی روزہ دار ہیں ؟ وہ تو سارا
دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں !جاؤ ،ان دونوں کو حکم دو کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تو
قے کردیں ۔ ‘‘ وہ صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیں فرمان شاہی سنایا۔اُن دونوں نے قے
کی، تو قے سے جما ہوا خون نکلا۔ اُن صحابی
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ نے آپ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی خدمتِ بابرکت میں واپس حاضر ہو کر صورتِ حال عرض کی۔
مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر یہ اُن
کے پیٹوں میں باقی رہتا ، تو اُن دونوں کو آگ
کھاتی۔(کیوں کہ انہوں نے غیبت کی تھی) (ذَمُّ
الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۷۲ رقم۳۱)
ایک
اور رِوایت میں ہے کہ جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان صحابی رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ سے
منہ پھیرا تو وہ سامنے آئے اورعرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! وہ دونوں پیاس کی شدت سے مرنے کے قریب
ہیں ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے حکم فرمایا: ’’اُن دونوں کو میرے پاس لاؤ۔‘‘
وہ دونوں حاضر ہوئیں ۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ایک پیالہ منگوایا اور اُن میں سے ایک کوحکم فرمایا: ’’اِس میں قے کرو!‘‘ اُس
نے خون، پیپ اور گوشت کی قے کی، حتی کہ آدھاپیالہ بھر گیا۔پھر آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے دُوسری کو حکم دیا کہ تم بھی اِس میں قے کرو!اُس نے بھی اِسی طرح کی قے کی،یہاں
تک کہ پیالہ بھر گیا اللہ عَزَّوَجَلَّکے
پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہا
کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا:اِن دونوں نےاللہ عَزَّوَجَلَّکی
حلال کردہ چیزوں (یعنی کھانے ،پینے وغیرہ)
سے تو روزہ رکھا مگر جن چیزوں کواللہ عَزَّوَجَلَّنے
(عِلاوہ روزے کے بھی)حرام رکھا ہے اُن (حرام چیزوں )سے روزہ اِفطار کر ڈالا!ہوا
یوں کہ ایک لڑکی دُوسری لڑکی کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں مل کر لوگوں کا گوشت کھانے(یعنی
غیبت کرنے)
لگیں ۔([2])
(مُسندِ اِمام احمد ج۹ص۱۶۵حدیث۲۳۷۱۴)
علم غیب مصطَفٰے صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہاللہ
عَزَّوَجَلَّکی عطا سے ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم
غیب حاصل
ہے اور آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کو اپنے غلاموں کے تمام معاملات معلوم ہوجاتے ہیں ۔جبھی تو اُن لڑکیوں کے بارے میں
مسجد شریف میں بیٹھے بیٹھے غیب کی خبر
ارشاد فرما دی۔ بہرحال روزہ
ہویا نہ ہو، زَبان کا قفلِ مدینہ ہی بھلا ورنہ یہ ایسے گل کھلاتی
ہے کہ توبہ! اگر ان تین اُصولوں کو
پیش نظر رکھ لیا جائے تو اِن شَآءَاللہ عَزَّ
وَجَلَّ بڑا
نفع ہوگا: {۱} بری بات کہنا ہر حال
میں برا ہے {۲}فضول بات سے خاموشی
اَفضل ہے {۳}اچھی
بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے۔
مر ی زبان پہ قفلِ
مدینہ لگ جائے فضول گوئی سے بچتا
رہوں سدا یا رب!
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ہاتھوں کا روزہ:
ہاتھوں
کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں ،
صرف نیک کاموں کے لئے اُٹھیں ۔ مَثَلاً باطہارت قراٰنِ کریم کو ہاتھ لگائیے،نیک
لوگوں سے مصافحہ کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکی خاطر آپس میں مَحَبَّت رکھنے والے جب باہم
ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر
دُرُود پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے
جاتے ہیں ۔‘‘ (ابو یعلیٰ ج ۳ ص۹۵حدیث ۲۹۵۱) ہوسکے
تو کسی یتیم کے
سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر یئے کہ ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض ایک
ایک نیکی مِلے گی۔(بچہ یا بچی اُس وَقت تک ہی یتیم ہیں جب تک نا بالغ ہیں جوں ہی
بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔لڑکا 12اور
15
سال کے درمیان بالغ اور لڑکی 9
اور 15
سال کے درمیان بالغہ ہو تی ہے)خبردار ! کسی پر
ظلماً
ہاتھ نہ اُٹھیں ،رِشوت لینے
دینے کے لئے نہ اُٹھیں ، نہ کسی کامال چرائیں ،نہ
تاش کھیلیں نہ پتنگ اُڑائیں ، نہ کسی نامحرم عورت
سے مصافحہ کریں ۔ (بلکہ شہوت کا اندیشہ ہو تو
اَمرد سے
بھی ہاتھ نہ ملائیں )
ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے
واسطے اٹھیں بچانا ظلم و ستم سے
مجھے سدا یا رب! (وسائل
بخشش ص۷۷)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پاؤں کا روزہ:
پاؤں کا
روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تَو صرف و صرف نیک کاموں کیلئے اُٹھیں ۔ مَثَلاً پاؤں
چلیں تومساجد کی طرف چلیں ،مزاراتِ اولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکی
طرف چلیں ، علما و صلحا کی زیارت کے لئے چلیں ،سنتوں بھرے اِجتماع کی طرف چلیں ،
نیکی کی دعوت دینے کیلئے چلیں ،سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں سفرکیلئے چلیں ،نیک صُحبتوں کی طرف چلیں ، کسی کی مدد کیلئے چلیں ،کاش! مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًومدینۂ
منوَّرہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی طرف چلیں ،سوئے منیٰ
و عرفات ومزدَلفہ چلیں ،طواف وسعی میں چلیں ۔ہر گز ہرگز سینما گھر کی طرف نہ چلیں
،ڈرامہ گاہ کی طرف نہ چلیں ، برے دوستوں کی مجلسوں کی طرف نہ چلیں ، شطرنج، لڈو ،
تاش، کرکٹ، فٹ بال، وِڈیوگیمز، ٹیبل فٹ بال وغیرہ وغیرہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی
طرف نہ چلیں ، کاش!پاؤں کبھی تو ایسے بھی چلیں کہ بس مدینہ ہی مدینہ لب پر
ہواورسفر بھی مدینے کا ہو۔ ؎
رہیں
بھلائی کی راہوں میں گامزن ہر دم کریں
نہ رُخ مرے پاؤں گناہ کا یا رب!
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تواُسی وَقت نصیب ہوں گی،جب ہم تمام اَعضا کا بھی روزہ
رکھیں گے، ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا جیسا کہ حضرت سیّدُِنا
ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
سے مروی ہے کہ سرکارِ عالی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے: ’’بہت سے روزہ دار
ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور
بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو اُن کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ حاصل
نہیں ہوتا۔‘‘ (
ابنِ ماجہ ج۲ص۳۲۰حدیث۱۶۹۰)
K الیکٹرک میں نوکری مل گئی:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!روزے
کی نورانیت اور روحانیت پانے اور مَدَنی ذِہن بنانے
کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے
وابستہ ہو جایئے اور سنتوں کی تربیت کے
مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر
کی سعادت حاصِل کیجئے۔ سُبحٰنَ اللہ!دعوتِ
اسلامی کے مَدَنی ماحول، سنتوں بھرے اجتماعات اور مَدَنی قافلوں کی بھی کیا خوب
مدنی بہاریں اور برکتیں ہیں۔ چنانچہ 19.6.2003
کو اورنگی ٹاؤن( بابُ المدینہ کراچی)
کے ایک اسلامی بھائی کا مبلغ دعوتِ اسلامی کے دعوت دینے پر
دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کی طرف
رُخ ہوا مگر پابندی نہیں تھی۔ بے روزگاری کے سبب پریشانی تھی، انہوں نے ایک اسلامی
بھائی کی ’’انفرادی کوشش‘‘ کے نتیجے میں 41روزہ
مَدَنی اِنعامات و مَدَنی قافلہ کورس کیلئے دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز
فیضانِ مدینہ میں داخلہ لے لیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عاشقانِ
رسول کی صحبتوں اور برکتوں نے ان پر مدنی رنگ
چڑھا دیا، اور جینے کا ڈھنگ سکھا دیا۔
مَدَنی قافلہ کورس پورا
کرنے کے دوسرے یا تیسرے دن ان کے بعض دوستوں نے بتایا : K
الیکڑک(
K-Electric )کو
ملازِموں کی ضرورت ہے ، ہم نے بھی درخواستیں جمع کروا دی ہیں آپ بھی کرو ا دیجئے۔
انہوں نے کہا: آج کل صِرف درخواستوں پر کہاں ! سفارِشوں (بلکہ رشوتوں )
پر نوکریوں کی ترکیب بنتی ہے! اپنے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔بالآخر اُن کے اصرار
پرانہوں نے ’’ درخواست ‘‘ جمع کروا دی۔ ابتِدائً
تحریری ٹیسٹ ہوئے پھر انٹرویو کے بعد میڈیکل
ٹیسٹ کی صورَت بنی ۔ بے شمار اثرو رُسوخ والی درخواستوں کے باوجود وہ واحِد ایسے
تھے کہ ہر جگہ کامیاب رہے! فائنل انٹر ویو میں ان کے گھر والوں نے زور دیا کہ پینٹ
شرٹ پہن کر جاؤ،مگر وہ تو عا شِقانِ رسول کی صحبت کی برکت سے انگریزی لباس ترک کرچکے
تھے لہٰذا سفید شلوار قمیص میں ہی پہنچ گئے ۔افسر نے ان کا مذہبی
حلیہ دیکھ کر بعض اسلامی معلومات کے سوالات کئے۔ جن کے انہوں نے جوابات دے دیئے
کیوں کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ انہوں نے یہ سب ’’مَدَنی انعامات و مَدَنی قافلہ
کورس ‘‘کے اندر سیکھے ہوئے تھے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بغیر
کسی سفارش و رشوت کے انہیں ملازَمت مل گئی۔ ان کے گھر والے دعوتِ
اسلامی کے
’’مَدَنی قافلہ کورس‘‘ اور مَدَنی ماحول کی برکت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے محب بن گئے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ انہیں دعوتِ اسلامی کی علاقائی مشاوَرَت کے ذِمے دار کی حیثیت سے اپنے علاقے
میں سنتوں کے ڈنکے بجا نے اور مَدَنی اِنعامات و مَدَنی قافلوں کی دھومیں مچا نے کی سعادت بھی ملی ۔
نوکَری چاہئے، آئیے آ
ئیے قافِلے میں چلیں ،
قافِلے میں چلو
تنگدستی مٹے، دور آفت
ہٹے لینے کو بَرَکتیں ،
قافِلے میں چلو (وسائل
بخشش ص۶۷۵،۶۷۲)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزے کی نیت:
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! روزے کیلئےنیت
شرط ہے ۔ لہٰذا ’’بے نیت روزہ اگر کوئی اِسلامی
بھائی یا اسلامی بہن صبحِ صادِق کے بعد سے لے کر غروبِ آفتاب تک بالکل نہ کھائے پئے تب بھی اُس کا روزہ
نہ ہوگا ‘‘ (ماخوذ
از رَدُّالْمُحتَار ج۳
ص۳۹۳)رَمضان شریف کا روزہ ہو یا نفل یا نذر معین
کا روزہ( یعنی اللہ
عَزَّوَجَلَّ
کیلئے کسی مخصوص دِن کے روزے کی منت مانی ہو مَثَلاً خود سن سکے اتنی آواز سے یوں
کہا ہو کہ ’’مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ
کیلئے اِس سال رَبِیْعُ الاول شریف
کی ہر پیرشریف کا روزہ ہے۔‘‘تَو یہ نذرمعین
ہے اور اِس منت کا پورا کرنا واجب ہوگیا۔)اِن
تینوں قسم کے روزوں کے لئے غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر’’نصف النہارِشرعی ‘‘(اِسے
ضَحوَۂ کُبریٰ
بھی کہتے ہیں ) سے پہلے پہلے تک جب بھی
نیت کرلیں روزہ
ہوجائے گا۔
(دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۳)
نصف النہار شرعی کا وقت
معلوم کرنے کا طریقہ:
جس
دِن کا نصف النہار شرعی
معلوم کرنا ہو اُس دِن کے صبحِ صادِق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کا وَقت شمار
کرلیجئے اور اُس سارے وَقت کے دوحِصّے کرلیجئے پہلا آدھا حصہ ختم ہوتے ہی ’’نصف
النہارِ شرعی ‘‘ کا وَقت شروع ہو گیا ۔ مَثَلاً آج صبحِ صادِق ٹھیک پانچ بجے ہے
اور غروبِ آفتاب ٹھیک چھ بجے ۔تو دونوں کے درمیان کا وَقت کل تیرہ گھنٹے ہوا،اِن
کےدوحصے کریں تو دونوں میں کا ہر ایک حصہ ساڑھے چھ گھنٹے کاہوا۔اب صبحِ صادِق کے
پانچ بجے کے بعد والے ابتدائی ساڑھے چھ گھنٹے ساتھ ملا لیجئے ،تو اِس طرح دِن کے
ساڑھے گیارہ بجے کے فوراً بعد ’’نصف النہارِ شرعی‘‘کا وَقت شروع ہوگیا تو اب ان
تین طرح کے روزوں کی نیت
نہیں ہو سکتی۔ (رَدُّالْمُحتَار
ج۳ص۳۹۳ مُلَخّصاً)
بیان
کردہ تین قسم کے روزوں کے علاوہ دیگر جتنی بھی اَقسامِ روزہ ہیں اُن سب کیلئے یہ
لازِمی ہے کہ راتوں رات یعنی غروبِ آفتاب کے بعد سے لیکر صبحِ صادِق تک نیت کرلیجئے،اگر
صبح صادِق ہوگئی تَو اب نیت
نہیں ہوسکے گی۔مَثَلاً قضائے روزئہ رَمضان ،کفارے کے روزے ،قضائے روزئہ نفل
(روزئہ نفل شروع کرنے سے واجب ہوجاتا ہے،اب بے عذرِ شرعی توڑنا گناہ ہے ۔اگر کسی
طرح سے بھی ٹوٹ گیا خواہ عذر سے ہویا بلا عذر،اِس کی قضا بہر حال واجب ہے)
’’روزئہ نذرِ غیر معین ‘‘ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ
کیلئے روزہ کی منت تَو مانی ہو مگر دِن مخصوص نہ کیا ہو اِس منت کا بھی پورا کرنا
واجب ہے اور اللہ
عَزَّوَجَلَّ
کیلئے مانی ہوئی ہر شرعی منت کا پورا کرنا واجب ہے جب کہ زَبان سے اِس طرح کے
اَلفاظ اتنی آواز سے کہے ہوں کہ خود سن سکے،مثلاً اِس طرح کہا :’’مجھ پر اللہ
عَزَّوَجَلَّ َّکیلئے
ایک روزہ ہے‘‘اب چونکہ اِس میں
دِن مخصوص نہیں کیا کہ کون سا روزہ
رکھوں گا لہٰذا زِندگی میں جب بھی منت کی نیت سے
روزہ
رکھ لیں گے منت ادا ہوجائے گی۔ منت کیلئے زَبان سے کہنا شرط ہے اور یہ بھی شرط ہے
کہ کم از کم اتنی آوازسے کہیں کہ خود سن لیں ، منت کے اَلفاظ اتنی آواز سے ادا تو
کئے کہ خودسن لیتا مگر بہراپن یا کسی قسم کے شور وغل وغیرہ کی وجہ سے سن نہ پایا
جب بھی منت ہوگئی اِس کا پورا کرنا واجب ہے)وغیرہ وغیرہ ان سب روزوں کی نیت رات میں ہی کرلینی ضروری ہے۔ ( ایضاً)
’’مجھے ماہِ رمضان سے پیار ہے ‘‘
کے بیس حروف
کی نسبت سے روزے کی نیت کے 20
مَدَنی پھول
{۱} ادائے
روزئہ رَمضان اور نذر معین (یعنی مقرر کردہ منت)اور
نفل کے روزوں کیلئے نیت کا وَقت غروبِ آفتاب کے
بعد سے
ضَحوَۂ کُبْریٰ یعنی نصف النہارِ شرعی سے پہلے پہلے تک
ہے اِس پورے وَقت کے دَوران آپ جب بھی
نیت کرلیں گے یہ روزے ہوجائیں گے۔
(دُرِّمُختار و رَدُّالْمحتار ج۳ص۳۹۳)
{۲} نیت
دِل کے اِرادے کا نام ہے زَبان سے کہنا شرط نہیں ،مگر زَبان سے کہہ لینا مستحب
ہے اگر رات میں روزئہ رَمضان کی نیت کریں تو یوں کہیں : نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ
مَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالیٰ مِنْ فَرْضِ رَمَضان۔
ترجمہ :میں نے نیت کی
کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے کل اِس رَمضان کا فرض روزہ رکھوں گا ۔
{۳} اگر دن میں نیت کریں تو یوں کہیں : نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ
مَ ھٰذاالْیومَ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مِنْ فَرضِ رَمَضان۔
ترجمہ
:میں نے نیت کی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کے لئے آج اِس رَمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔ (جَوْہَرہ
ج۱ص۱۷۵)
{۴} عربی
میں نیت کے کلمات ادا کرنے اُسی وَقتنیت
شمار کئے جائیں گے جبکہ اُن کے معنیٰ بھی آتے ہوں ، اور یہ بھی یاد رہے کہ زَبان
سے نیت کرنا خواہ کسی بھی زَبان میں ہواُسی وَقت
کار آمد ہوگا جبکہ اُس وقت دِل میں بھی
نیت موجود ہو۔
(اَیضاً)
{۵} نیت
اپنی مادَری زَبان میں بھی کی جاسکتی ہے، عربی میں کریں خواہ کسی اور زَبان میں ، نیت کرتے وَقت دِل میں اِرادہ موجود ہونا شرط ہے، وَرنہ بے خیالی میں صِرف
زَبان سے رَٹے رَٹائے جملے ادا کرلینے سے نیت نہ
ہو گی۔ ہاں زَبان سے رَٹی ہوئی
نیت کہہ لی مگر بعد میں نیت کیلئے مقررہ وَقت
کے اندر دِل میں بھی نیت کرلی تواب نیت صحیح ہے۔
(رَدُّالْمحتار ج۳ص۳۳۲)
{۶} اگر
دِن میں نیت
کریں تو ضروری ہے کہ یہ نیت
کریں کہ میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں ۔اگر اِس طرح نیت
کی کہ اب سے روزہ دار ہوں صبح سے نہیں ،تو روزہ نہ ہوا۔ (جَوْہَرہ
ج۱ص۱۷۵ و
رَدُّالْمحتار ج۳ص۳۹۴)
{۷} دِن
میں وہ نیت
کام کی ہے کہ صبح صادِق سے نیت
کرتے وَقت تک روزے کے خلاف کوئی امر(یعنی معاملہ) نہ پایا گیا
ہو۔ البتہ صبح صادِق کے بعدبھول کر کھاپی لیا یا جماع
کرلیا تب بھی نیت صحیح ہوجائے گی۔ (مُلَخَّص
از رَدُّالْمحتارج۳ص۳۶۷)
{۸} آپ
نے اگر یوں نیت
کی کہ ’’کل کہیں دعوت ہوئی تَو روزہ
نہیں اور نہ ہوئی تو روزہ
ہے‘‘۔یہ نیت
صحیح نہیں ، آپ روزہ دار نہ ہوئے۔ (عَالمگِیری ج۱ص۱۹۵)
{۹} ماہِ
رَمضان کے دِن میں نہ روزے کی
نیت کی نہ یہ کہ ’’روزہ نہیں ‘‘ اگرچہ معلوم
ہے کہ یہ رَمَضانُ
الْمبارَک کا مہینا ہے تو روزہ
نہ ہوگا۔ (عَالمگِیری
ج۱ص۱۹۵)
{۱۰} غروبِ
آفتاب کے بعد سے لے کر رات کے کسی وَقت
میں بھینیت کی پھر اِس کے بعد رات ہی میں کھایاپیا تو نیت
نہ ٹوٹی ،وہ پہلی ہی کافی ہے پھر سے نیت کرنا
ضروری نہیں ۔ ( جَوْہَرہ ج۱ ص۱۷۵)
{۱۱} آپ
نے اگر رات میں روزے کینیت
تو کی مگر پھر راتوں رات پکا اِرادہ کر لیا کہ ’’روزہ نہیں رکھوں گا‘‘تو اب وہ آپ
کی ،کی ہوئی نیت جاتی رہی ۔اگر نئینیت
نہ کی اور دِن بھر روزہ دار وں کی طرح بھوکے پیاسے رہے تو روزہ نہ ہوا۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۳۹۸)
{۱۲} دَورانِ نماز کلام (بات چیت) کی نیت تو
کی مگر بات نہیں کی تو نماز فاسد نہ ہوگی۔اِسی طرح روزے کے دَوران توڑنے کی صرف نیت کر لینے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک توڑنے والی کوئی چیز نہ کرے ۔ (جَوْہَرہ
ج۱
ص ۱۷۵)
{۱۳} سحری کھانا
بھینیت ہی ہے خواہ ماہِ رَمضان کے روزے کیلئے ہو یا کسی اور روزے
کیلئے مگر جب سحری کھاتے وَقت یہ اِرادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا تو یہ سحری کھانانیتنہیں ۔ (
اَیضاً ص۱۷۶)
{۱۴} رَمَضانُ الْمبارَک کے ہر روزے کے لئے نئینیت
ضروری ہے ۔ پہلی تاریخ یا کسی بھی اور تاریخ میں اگر پورے ماہِ
رَمضان کے روزے کینیت
کر بھی لی تو یہنیت
صرف اُسی ایک دن کے حق میں ہے ،باقی دِنوں کیلئے نہیں ۔ ( اَیضاً )
{۱۵} ادائے
رَمضان اور نذرِ معین اور نفل کے علاوہ باقی روزے مَثَلاً قضائے رَمضان اور نذر غیرمعین اور نفل کی قضا اور نذر معین کی قضا اور
کفارے کا روزہ اور تَمَتُّع([3])کا
روزہ اِن سب میں عین صبح چمکتے (یعنی ٹھیک صبح صادق کے) وَقت
یا رات میں نیت
کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو
روزہ رکھنا ہے خاص اُسی مخصوص روزے کی
نیت کریں ۔ اگر اِن روزوں کینیت
دِن میں (یعنی
صبحِ صادِق سے لیکر ضَحوۂ کُبریٰ
سے پہلے پہلے)کی تو نفل ہوئے پھر بھی اِن کا پورا کرنا
ضروری ہے ،توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی، اگر چہ یہ بات آپ کے علم میں ہو کہ میں جو
روزہ رکھنا چاہتا تھا یہ وہ روزہ نہیں ہے بلکہ نفل ہی ہے۔
(دُرِّمُختَار ج۳ص۳۹۳)
{۱۶} آپ
نے یہ گمان کرکے
روزہ رکھا کہ میرے ذِمے روزے کی قضا ہے،اب
رکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گمان غلط تھا۔اگر فوراًتوڑدیں تو کوئی حرج نہیں ،البتہ
بہتریہی ہے کہ پورا کر لیں ۔ اگر معلوم ہونے کے فوراً بعد نہ توڑا تو اب لازِم
ہوگیااسے نہیں توڑسکتے اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہے۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۳۹۹)
{۱۷} رات
میں آپ نے قَضا روزے کی
نِیَّت کی، اگر اب صبح شروع ہو جانے کے بعدا
ِسے نَفْل کرنا چاہتے ہیں تو نہیں کرسکتے ۔ (ایضاً
ص۳۹۸)ہاں
راتوں رات نیت تبدیل کی جا سکتی تھی۔
{۱۸} دَورانِ
نماز بھی اگر روزے کی نیت
کی تو یہ نیت
صحیح ہے۔ (دُرِّمُختَارو رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۸)
{۱۹}کئی روزے
قضا ہوں تو نیت
میں یہ ہونا چاہیے کہ اُس رَمضان
کے پہلے روزے کی قضا،دوسرے کی قضا اور اگر کچھ اِس سال کے قضا ہوگئے کچھ پچھلے سال
کے باقی ہیں تو یہ نیت
ہونی چاہئے کہ اِس رَمضان کی
قضا اور اُس رَمضان
کی قضا اور اگر دِن اور سال کو معین(یعنیFix)
نہ کیا، جب بھی ہوجائیں گے۔ (عالَمگیری ج۱ص۱۹۶)
{۲۰} مَعَاذَ اللہ
عَزَّوَجَلَّ آپ نے
رَمضان کا روزہ رکھ لینے کے بعدقصداً
(یعنی جان بُوجھ کر ) توڑ ڈالا تھا توآپ پر اِس
روزے کی
قضا بھی ہے اور
(اگر کفارے کی شرائط پائی گئیں تو) ساٹھ روزے کفارے کے بھی ۔اب آپ نے
اِکسٹھ روزے رکھ لئے قضا کا دِن معین (fix ) نہ کیا تو اِس میں قَضا اور کفَّارہ دونوں ادا
ہوگئے۔(ایضاً)
روزہ
اور دیگر اعمال کی نیتیں سیکھنے کا جذبہ بیدار کرنے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر
غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے
سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے
ساتھ سنتوں بھرا سفر کیجئے اور دونوں جہانوں کی برکتیں حاصل کیجئے۔ آپ کی ترغیب
کیلئے مَدَنی قافِلے کی ایک خوشگوار وخوشبو دار
’’مَدَنی بہار‘‘ آپ کے گوش گزارکرتا ہوں چنانچہ رنچھوڑ
لائن ( بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی
کے بیان کاخلا صہ ہے کہ ایک بار عاشقانِ رسول
کے تین دن کے مَدَنی قافلے
میں ایک تقریباً 26 سالہ اسلامی بھائی بھی
شریکِ سفر تھے،وہ دُعا میں بہت گریہ وزاری کرتے تھے۔ اِستفسار (یعنی
پوچھنے )پر بتایا کہ میری ایک ہی
مَدَنی منی ہے اور اُس کے چہرے پر داڑھی کے بال
اُگنے شروع ہو گئے ہیں ! اِس کی وجہ سے مجھے سخت تشویش ہے، ایکسرے اور ٹیسٹ وغیرہ
سے سبب سامنے نہیں آ رہا اور کوئی بھی علاج کار گر نہیں ہو پا رہا ۔ان کی درخواست
پر شرکائے مَدَنی قافلہ نے ان کی مَدَنی منی کیلئے دعا کی ۔ سفر مکمل ہو جانے کے
بعد جب دوسرے دن اُس دُکھیارے اسلامی بھائی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مسرت سے
جھومتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ بچی کی امی نے بتایا کہ آپ کے
مَدَنی قافلے میں سفر پر روانہ ہونے کے دوسرے ہی دن اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حیرت
انگیز طور پر مَدَنی منی کے چہرے سے بال ایسے غائب ہوئے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں
!
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کے کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں روزے
جیسی عظیم الشان نعمت عنایت عطا فرمائی اور ساتھ ہی قوت کیلئے سحری
کی نہ صرف اِجازت مرحمت فرمائی،بلکہ اِس میں ہمارے لئے ڈھیروں ثوابِ آخِرت بھی
رکھ دیا۔
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ کبھی سحری
کرنے سے رہ جاتے ہیں تَوفخریہ یوں کہتے سنائی دیتے ہیں :’’ہم نے توآج بغیر سحری
کے روزہ رکھا ہے!‘‘مکی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے
دِیوانو ! یہ فخرکا موقع ہرگز نہیں ، سحری
کی سُنَّت چھوٹنے پرتو افسوس ہوناچاہیے کہ افسوس !
تاجدار رِسالت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی ایک عظیم سنت چھوٹ گئی ۔
حضرت
سَیِّدُنا شیخ شرف الدین اَلْمَعروف
بابا بلبل شاہ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’ اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اپنی رَحمت سے اِتنی طاقت بخشی
ہے کہ میں بغیر کھائے پئے اور بغیر
سازو سامان کے بھی اپنی زندَگی گزار سکتا ہوں ۔ مگر چونکہ یہ اُمور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت نہیں ہیں ، اِس لئے میں اِن سے بچتا ہوں ، میرے نزدیک سنت کی پیروی ہزار سال کی(نفل)
عبادت سے بہتر ہے۔‘‘ بہر حال تمام تر اَعمال کا حسن و جمال اِتباعِ
سنت محبوبِ رَبِّ ذوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پنہاں ہے۔
سونے کے بعد سحری کی اجازت نہ تھی:
ابتداء ً
روزہ رکھنے والے کو غروبِ آفتاب کے بعد صِرف اُس وَقت تک کھانے پینے کی اِجازت تھی
جب تک وہ سونہ جائے ،اگر سوگیا تو اب بیدار ہوکر کھانا پینا ممنوع تھا۔مگر ربِّ
کریم عَزَّوَجَلَّنے
اپنے پیارے بندوں پر اِحسانِ عظیم فرماتے ہوئے سحری
کی اجازت مرحمت فرمادی ، اِس کا سبب بیان کرتے ہوئے خَزائنُ الْعرفان
میں صدرُ الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِینقل کرتے ہیں :
حضرت سَیِّدُنا صر مہ بن قیس
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ مِحنَتیشخص
تھے۔ ایک دن بحالت روزہ
اپنی زمین میں دِن بھر کام کرکے شام کو گھرآئے۔ اپنی زوجۂ محترمہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہا سے کھانا طلب کیا، وہ پکانے میں مصروف
ہوئیں ۔آپ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ تھکے ہوئے تھے، آنکھ لگ گئی ۔ کھانا
تیار کرکے جب آپ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ کو جگایا گیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
نے کھانے سے اِنکار کر دیا۔ کیوں کہ اُن دِنوں (غروبِ آفتاب کے بعد)سوجانے
والے کیلئے کھانا پینا ممنوع ہوجا تا تھا۔ چنانچہ کھائے پئے بغیر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
نے دوسرے دِن بھی روزہ
رکھ لیا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
کمزوری کے سبب بے ہوش ہوگئے۔ (تفسیرِ خازن ج۱ص۱۲۶) تو ان کے حق میں
یہ آیت ِمُقَدَّسہ نازِل ہوئی:
وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ
الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪-ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ
اِلَى الَّیْلِۚ- (پ۲،البقرۃ:۱۸۷)
ترجَمَۂ
کنزالایمان:
اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہِر ہوجائے سَفَیْدی
کا ڈَورا سِیاہی کے ڈَورے سے پَوپھٹ کر۔ پھر رات آنے تک روزے پُورے کرو۔
اِس
آیت ِمُقَدَّسہ میں رات کو سیاہ ڈور ے سے اور صبح صادِق کو سفید ڈورے سے تشبیہ(تَش۔بِیْہ) دی گئی۔ معنٰی یہ ہیں کہ
تمہارے لئے رَمَضانُ
الْمبارَک کی راتوں میں کھانا پینا مباح (یعنی
جائز)قرار دے دیا گیا ہے۔(خزائن
العرفان ص ۶۲ بتصرف)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس
سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزے کا اذانِ فجرسے
کوئی تَعلُّق نہیں یعنی فجرکی اَذان کے دَوران کھانے پینے کا کوئی جَواز ہی نہیں
۔اَذان ہویا نہ ہو،آپ تک آواز پہنچے یا نہ پہنچے صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے آپ کو
کھانا پینا بند کرنا ہوگا۔
’’سُنّت‘‘ کے تین حروف کی نسبت سے سحری
کے
متعلق 3 فرامین مصطَفٰے
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
{۱} روزہ
رکھنے کیلئے سحری کھا کر قوت حاصل کرو اوردن (یعنی
دوپہر ) کے
وَقت آرام (یعنی قیلولہ ) کرکے رات کی عبادت
کیلئے طاقت حاصل کرو۔ ( ابنِ مَاجَہ ج۲ص۳۲۱حدیث۱۶۹۳)
{۲}تین آدمی جتنا بھی کھالیں اُن سے کوئی
حساب نہ ہوگابشرطیکہ کھانا حلال ہو(۱) روزہ
دار اِفطار کے وَقت (۲) سحری کھانے والا (۳)مجاہدجو
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں سر حد اسلام کی حفاظت کرے۔(مُعجَم
کبیر ج۱۱
ص ۲۸۵
حدیث ۱۲۰۱۲)
{۳} سحری
پوری کی پوری بَرَکت ہے پس تم نہ چھوڑو چاہے یِہی ہو کہ تم پانی کا ایک گھونٹ پی
لو۔ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے رَحمت بھیجتے ہیں سحری کرنے والوں پر ۔ (مُسند امام احمد ج۴ ص۸۸ حدیث۱۱۳۹۶)
سحری
روزے کیلئے شرط نہیں ، سحری
کے بِغیر بھی روزہ ہوسکتا
ہے مگر جان بوجھ کر سحری
نہ کرنا مناسب نہیں کہ ایک عظیم سنت سے محرومی ہے او رسحری
میں خوب ڈٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں ، چند کَھجوریں اور
پانی ہی اگر بہ نیت سحری
استعمال کر لیں جب بھی کافی ہے ۔
حضرت
سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
فرماتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ، سرورِ قلب وسینہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے سحری کے وَقت مجھ سے فرمایا: ’’میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ
کھلاؤ۔‘‘ تو میں نے کچھ کَھجُوریں اور
ایک برتن میں پانی پیش کیا۔ ‘‘(السُّنَنُ
الکُبریٰ لِلنَّسائی ج۲ص۸۰حدیث۲۴۷۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ روزہ دار کیلئے ایک
تو سحری
کرنا بذاتِ خود سُنَّت
اور کھجور سے سحری
کرنا دوسری سُنَّت، کیوں کہ اللہ تَعَالٰی کے
حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے کھجور سے سحری
کرنے کی ترغیب دی ہے۔چنانچِہ سَیِّدُنا سائب بن یزید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ
سے مر وی ہے، اللہ کے
پیارے حبیب ، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’نِعْمَ
السَّحُوْرُ التَّمْرُ۔ یعنی
کھجور
بہترین سحری
ہے۔‘‘ (مُعجَم
کبیر ج۷ ص۱۵۹حدیث ۶۶۸۹)
ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’نِعْمَ سَحُوْرُالْمُؤْمِنِ
التَّمْرُ۔یعنی کھجور مومن کی کیا ہی اچّھی سحری
ہے۔‘‘(
ابوداوٗد ج ۲ ص۴۴۳حدیث۲۳۴۵)
حنفیوں کے بہت بڑے عالم حضرتِ علامہ مولانا علی قاری عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں : ’’بعضوں
کے نزدیک سحری
کا وَقت آدھی
رات سے شروع ہوجاتا ہے۔‘‘(مِرقاۃُالمفاتیح ج۴ ص۴۷۷)
سحری
میں تاخیر اَفضل ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا یعلی بن مرہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنہ سے رِوایت ہے کہ پیارے سرکار ، مدینے کے
تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے فرمایا:’’تین
چیزوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ محبوب رکھتا ہے(ا)اِفطار میں جلدی اور (۲)سحری
میں تاخیر اور (۳)نماز (کے
قیام )
میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔‘‘
(مُعجَم اَوسَط ج۵ ص
۳۲۰ حدیث۷۴۷۰)
سحر ی میں تاخیر سے کون سا وقت
مراد ہے؟
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! سحری
میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے مگر اتنی تاخیر بھی نہ
کی جائے کہ صبحِ صادق کا شبہ ہونے لگے!یہاں ذِہن
میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’تاخیر ‘‘ سے مراد کون سا وَقت ہے ؟
مُفَسّرِشہیرحکیمُ
الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ الحَنّان ’’ تفسیرنعیمی ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’اِس
سے مراد رات
کا چھٹا حصہ ہے ۔‘‘پھر سوال ذِہن میں اُبھرا کہ رات
کا
چھٹا
حصہ کیسے معلوم کیا جائے ؟اِس کا جواب یہ ہے کہ
غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادِق تک رات کہلاتی ہے
۔ مَثَلاً کسی دِن
سات بجے شام کو سورج غروب ہوا اورپھر چار بجے
صبح صادِق ہوئی۔اِس طرح غروبِ آفتاب سے لے کر صبحِ صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ
گزرا وہ رات کہلایا۔اب رات کے اِ ن نو گھنٹوں کے برابر برابر چھ حصے کر دیجئے ۔ہر
حصہ ڈیڑھ گھنٹے
کا ہوا ،اب رات کے آخر ی ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے ) کے
دوران صبحِ صادِق سے پہلے پہلے سحری کرنا
تاخیر سے کرنا ہوا۔ سحری
واِفطَار کا وَقت روزانہ بدلتا رہتا ہے۔ بیان کئے ہوئے طریقے کے مطابق جب چاہیں
رات کا چھٹا حصہ نکال سکتے ہیں ۔اگر رات سحری
کر لی اور روزے کی نیت بھی کرلی ۔تب بھی بقیہ رات کے دوران کھاپی سکتے ہیں ، نئی
نیت کی حاجت نہیں ۔
اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ
روزہ بند کرنے کے لیے!:
بعض
لوگ صبح صادِق کے بعد فجر کی اذان کے دوران کھاتے پیتے رہتے ہیں ، اور بعض کان لگا
کر سنتے ہیں کہ ابھی فلاں مسجِد کی اذان ختم نہیں ہوئی یا کہتے ہیں : وہ سنو! دُور
سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں ۔ اگر کھاتے نہیں تو
پانی پی کر اپنی اِصطلاح میں ’’روزہ بند ‘‘ کرتے ہیں ۔ آہ ! اِس طرح ’’روزہ بند‘ ‘
تو کیاکریں گے روزے کو بالکل ہی ’’کھلا‘‘ چھوڑ
دیتے ہیں اور یوں صبح صادق کے بعد کھایا پی لینے کے سبب ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں
،اور سارادن بھوک پیاس کے سوا کچھ ان کے ہاتھ آتا ہی نہیں ۔’’ روزہ بند ‘‘کرنے کا
تعلق اَذانِ فجر
سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے، جیسا کہ آیت مقدسہ
کے تحت گزرا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو عقلِ
سلیم عطا فرمائے اور صحیح اَوقات کی معلومات کرکے روزہ نماز وغیرہ عبادات دُرست
بجالانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
علم
دین سے دُوری کے سبب آج کل کافی لوگ
اَذان یا سائرن ہی پر سحری
و اِفطار کا دارو مَدار رکھتے ہیں بلکہ بعض
تو اَذانِ فجر کے دَوران ہی ’’روزہ بند ‘‘ کرتے ہیں ۔اِس عام غلطی کو دُور کرنے
کیلئے کیا ہی اچھا ہوکہ رَمَضان الْمُبارَک میں
روزانہ صبحِ صادِق سے تین منٹ پہلے ہرمسجد میں بلندآواز سے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد کہنے کے بعد اِس طرح
تین بار اِعلان کردیا جائے: ’’عاشقانِ رسول متوجہ ہوں
، آج سحری کا آخری وَقت (مَثَلاً)چار
بج کر بارہ منٹ ہے، وَقت ختم ہورہا ہے، فوراًکھانا پینا بند کر دیجئے ، اذان کا
ہرگز انتظار نہ فرمائیے ، اذان سحری کاوقت ختم ہو جانے کے بعدنمازِ فجر کے لئے دی جاتی ہے۔‘‘
ہر
ایک کو یہ بات ذِہن نشین کرنی ضروری ہے کہ اَذانِ فجر
صبح صادِق کے بعد ہی دینی ہوتی ہے اور وہ ’’روزہ
بند‘‘ کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف نمازِ فجر
کیلئے دی جاتی ہے۔
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مَدَنی قافلے کی نیت کرتے ہی مشکل
آسان ہوگئی!:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تبلیغقراٰن
وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ،
دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں
عاشقانِ رسول کے
ساتھ سنتوں بھرا سفر فرماتے رہئے اِنْ
شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیاں ہاتھ
آئیں گی ۔ آپ کی ذَوق افزائی کیلئے مَدَنی قافلے کی ایک’’ مَدَنی بہار‘‘ گوش
گزار کرتا ہوں ، چنانچِہ لانڈھی (بابُ المدینہ کراچی) کے
ایک اسلامی بھائی کے بڑے بھائی کی شادی کے دن قریب آ رہے تھے، اَخراجات کا انتظام
نہیں تھا، انہیں سخت تشویش تھی، قرض لینے کا ذہن بھی نہیں بن رہا تھا کہ ادا کرنے
میں تاخیر کی صورَت میں جان سے پیاری مَدَنی تحریک ، ’’دعوت
اسلامی‘‘ کے نام پر بٹا لگ سکتا ہے ۔ ایک دن
اِنتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے نَمازِ ظہر ادا کی اور دل ہی دل میں نیت کی
کہ اگر رقم کا انتظام ہو گیا تو مَدَنی
قافلے میں سفر کی سعادت حاصِل کروں گا۔ نماز
سے فراغت کے بعد ابھی نمازیوں سے ملاقات اور اِنفرادی کوشش میں
مصروف تھے کہ امام صاحب جو رِشتے میں ان کے تایا جان تھے اور ان کی پریشانی سے
واقف بھی۔ اُنہوں نے انہیں بُلایا اور
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بغیر سوال کے خود ہی رقم دینے کا وعدہ فرما لیا۔
وہ اسلامی بھائی دوسرے ہی دن مَدَنی قافلے کے مسافر بن گئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی قافلے
میں سفر کی نیت کی برکت سے ان کی اُلجھن دُور ہو گئی۔ تاریخ طے ہوتے وَقت بارِ قرض
تلے دبے ہوئے تھے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بڑے بھائی جان کی شادی بھی ہو گئی اور قرض بھی
اُتر گیا ۔ ؎
قلب بھی شاد ہو، گھر
بھی آباد ہو شادیاں بھی رچیں ،
قافِلے میں چلو
قرض اتر جائے گا، خوب
رزق آئے گا سب بلائیں ٹلیں
، قافِلے میں چلو (وسائل
بخشش ص۶۷۵)
صَلُّو
ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! چھوٹے
بھائی کی مَدَنی قافلے میں سفر کی نیت کی برکت سے ادائے قرض کا انتظام، رقم کا
اہتمام اور بڑے بھائی کی شادی والا کام ہو گیا۔
ہر
نماز کے بعد سات بار سُوْرَۃُ قُرَیْش (
اول آخر ایک بار درود شریف ) پڑھ کر دعا مانگئے۔
پہاڑ جتنا قرض ہوگا تب بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّادا
ہو جائے گا ۔ عمل تا حصولِ مراد جاری رکھئے۔
اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ
بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
(ترجمہ: یااللہ عَزَّوَجَلَّ!مجھے حلال رزق عطا
فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل وکرم سے اپنے سوا غیروں سے بے نیاز کردے)تا
حصولِ مرادہر نماز کے بعد 11
،11 بار اور صبح وشام 100،
100 بار روزانہ( اوّل وآخر ایک ایک
بار دُرُودشریف) پڑھئے۔ مروی ہوا کہ ایک مکاتب([4])
نے حضرت مولائے
کائنات، علیُّ
المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ
اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی
بارگاہ میں عرض کی: ’’میں اپنی کتابت(یعنی
آزادی کی قیمت) ادا کرنے سے عاجِز ہوں میری مدد
فرمائیے۔‘‘ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی
نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں جورَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے سکھائے ہیں
، اگر تم پر جبل صِیر([5])جتنا دَین (یعنی قرض) ہوگا تو اللہ تَعَالٰی تمہاری
طرف سے ادا کردے گا ،تم یوں کہا کرو: اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ
وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ (ترجمہ : یااللہ
عَزَّوَجَلَّ!
مجھے حلال رِزق عطا فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل وکرم سے اپنے سواغیروں سے بے
نیاز کردے) ( تِرمِذی ج۵ ص۳۲۹ حدیث۳۵۷۴)
صُبح وشام کی تعریف:آدھی
رات کے بعد سے لے کر سورج کی پہلی کرن چمکنے تک
صبح اور ابتدائِ وقتِ ظہر سے غروبِ آفتاب
تک شام کہلاتی ہے۔
مَدَنی مشورہ: پریشان حال اسلامی بھائی کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھراسفرکرکے وہاں دعا
مانگے،اگر خودمجبور ہے مَثَلًا اسلامی بہن ہے تو اپنے گھر میں سے کسی اورکو
سفرپربھجوائے۔
[1] ۔۔۔ فیضان
سنت میں ہر جگہ مسائل فقہ حنفی کے مطابق دیئے گئے ہیں۔لہذا شافع ، مالکی ، حنبلی
اسلامی بھائی فقہی مسائل کے معاملے میں اپنے اپنے علمائے کرام سے رجوع کریں۔
[2] ۔۔۔مکتبہ المدینہ کی
طر ف سے شائع کردہ منفرد رسالہ " غیبت کی تباہ کاریاں (46صفحات )پرھئے ان شاء اللہ عزوجل
غیبت جیسے گناہ کبیرہ سیمزید بچنے کا ذہن بنے گا۔
[3] ۔۔۔ حج
کی تین قسمیں ہیں (1) قران (2) تمتع (3) افراد ۔قران اور تمتع والے حج ادا کرنے کے
بعد بطور شکرانہ حج کی قربانی کرنا واجب ہے جبکہ افراد والے کیلئے مستحب ۔ اگر قران اور تمتع والے بہت زیادہ
مسکین اورمحتاج ہیں مگرقران اور تمتع کی نیت کرلی ہے۔ اور اب ان کے پاس نہ کوئی
قربانی کے لائق جانور ہے نہ رقم نہ ہی کوئی ایسا سامان وغیرہ ہے جسے فروخت کرکے
قربانی کا انتظام کرسکیں تو اب قربانی کےبدلے ان پر دس روزے واجب ہونگے ۔تین روزے حج کیمہینوں میں یکم شوال المکرم سے
نویں ذی الحجۃ الحرام تک احرام باندھنے کےبعد اس بیچ میں جب چاہیں رکھ لیں۔ ترتیب وار رکھنا ضروری نہیں۔ ناغہ کرکے بھی
رکھ سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ سات، آٹھ
اور نویں ذی الحجۃ الحرام کو رکھیں اور
پھر تیرہ ذی الحجۃ الحرام کے
بعد بقیہ سات روزے جب چاہیں رکھ سکتے ہیں بہتر یہ ہے کہ گھر جا کر رکھیں۔
[4] ۔۔۔ مکاتب
اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے آقا سے مال کی ادائیگی کے بدلے آزادی کا معاہدہ کیا
ہوا ہو۔ (المختصر
القدوری ، کتاب المکاتب ص ۳۷۶)
Comments