عشرۂ مغفرت
مدینے کے دیوانو!رَمَضانُ الْمبارَک کی جلوہ گری تو کیا ہوتی ہے ، ہم غریبوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔خوب مغفرت کے پَروانے تقسیم ہوتے ہیں۔حضرتِسَیّدُناابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے: مکی مَدَنی سلطان، رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے : پس جو کوئی ماہِ رَمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ،اور اُس کیلئے صبح سے شام تک70 ہزارفرشتے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ رات اور دِن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اُس کے ہر سجدے کے بدلے اُسے (جنت میں ) ایک ایک ایسا دَرَخت عطا کیا جاتاہے کہ اُس کے سائے میں (گھوڑے) سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔(شُعَبُ الایمان ،ج۳ ،ص ۳۱۴ ،حدیث ۳۶۳۵ مُلَخَّصاً) حضرتِ سَیِدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہ ِذیشان، مکی مَدَنی سلطان،رحمت عالمیان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: رَمضان شریف کی ہرشب آسمانوں میں صبح صادِق تک ایک منادِی (یعنی اعلان کرنے والافرشتہ)یہ ندا (اعلان) کرتا ہے:اے بھلائی طلب کرنے والے! ارادہ پختہ کر لے اور خوش ہوجا، اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے !برائی سے باز آجا۔ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار! کہ اُس کی طلب پوری کی جائے ۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا!کہ اُس کی توبہ قبول کی جائے ۔ ہے کوئی دُعامانگنے والا!کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے۔ہے کوئی سائل! کہ اُس کا سوال پورا کیا جائے۔(شُعَبُ الْاِیمان، ج۳،ص۳۰۴،حدیث۳۶۰۶)فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:’’رَمضان کے روزہ دار کیلئے مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں ۔‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج ۲ ،ص ۵۵ ،حدیث ۶)
مُحمَّدنامی ایک آدمی سارا سال نَما زنہ پڑھتا تھا۔ جب رمضان شریف کا مُتَبَرّکمہینا آتا تو وہ پاک صاف کپڑے پہنتا اورپانچوں وَقت پابندی کے ساتھ نَماز پڑھتا اور سالِ گزشتہ کی قضا نمازیں بھی ادا کرتا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا: تو ایسا کیوں کرتا ہے؟اُس نے جواب دیا: یہ مہینارحمت، برکت ، توبہ اورمغفرت کا ہے،شاید اللہ تَعَالٰی مجھے میرے اِسی عمل کے سبب بخش دے۔ جب اُس کا انتقال ہوگیا تو کسی نے اُسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنیاللہ تَعَالٰی نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟اُس نے جواب دیا: ’’میرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے اِحترامِ رَمضان شریف بجا لانے کے سبب بخش دیا۔ (دُرَّۃُ النَّاصِحِین ،ص۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟خدا ئے رَحمٰنعَزَّوَجَلَّماہِ رَمضان کے قدر دان پر کس دَرَجہ مہربان ہے کہ سال کے باقی مہینے چھوڑ کر صرف ماہِ رَمضان میں عبادت کرنے والے کی مغفرت فرمادی۔اِس حکایت سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اب تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) ساراسال نمازوں کی چھٹی ہوگئی !! صرف رَمَضَانُ المُبارَکمیں روزہ نَماز کرلیا کریں گے اور سیدھے جنت میں چلے جائیں گے۔ پیارے اسلامی بھائیو! دراصل بخشنا یا عذاب کرنایہ سب کچھ اللہ تَعَالٰی کی مَشِیَّت پر موقوف ہے ،وہ بے نیاز ہے،اگر چاہے تو کسی مسلمان کو بظاہر چھوٹے سے نیک عمل پر ہی اپنے فضل سے بخش دے اور اگر چاہے تو بڑی بڑی نیکیوں کے باوجود کسی کو محض ایک چھوٹے سے گُناہ پر اپنے عدل سے پکڑلے۔پارہ3 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر284 میں ارشاد ِ ربِّ بے نیاز ہے:
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-(پ۳،البقرۃ:۲۸۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: تو جسے چاہے گا (اپنے فضل سے اہلِ ایمان کو) بخشے گا اور جسے چاہے گا ( اپنے عدل سے) سزا دے گا۔
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا
(فیضانِ رمضان، ص62)
Comments