’’عید‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سے شش عید کے روزوں کے فضائل پرمشتمل تین فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نومولود کی طرح گناہوں سے پاک:
{۱}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھر چھ دن شَوّال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (مَجْمَعُ الزَّوَائِد ج۳ص۴۲۵حدیث۵۱۰۲)
گویا عمر بھر کا روزہ رکھا:
{۲}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھران کے بعد چھ دن شوال میں رکھے، توایسا ہے جیسے دَہْر کا (یعنی عمر بھرکیلئے)روزہ رکھا۔‘‘ (مُسلِم ص۵۹۲حدیث۱۱۶۴)
سال بھر روزے رکّھے:
{۳} ’’جس نے عیدُالْفِطْر کے بعد(شوال میں ) چھ روزے رکھ لئے تو اُس نے پورے سال کے روزے رکھے کہ جو ایک نیکی لائے گا اُسے دس ملیں گی۔ تو ماہِ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے میں دومہینے تو پورے سال کے روزے ہوگئے۔‘‘ (اَلسّنَنُ الکُبریلِلنَسائی ج۲ ص۱۶۲،۱۶۳حدیث۲۸۶۰،۲۸۶۱)
شش عید کے روزے کب رکھے جائیں ؟:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی’’ بہار شریعت‘‘ کے حاشیے میں فرماتے ہیں : ’’بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (مُ۔تَ۔فَر۔رِق یعنی جدا جدا)رکھے جائیں اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے، جب بھی حرج نہیں ۔‘‘ (دُرِّمُختارج۳ ص۴۸۵،بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۱۰)
خلیلِ ملّت حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادِری برکاتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : یہ روزے عید کے بعد لگاتار رکھے جائیں تب بھی مضایقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ مُتَفَرِّق (یعنی جدا جدا ) رکھے جائیں یعنی(جیسے) ہر ہفتے میں دو روزے اور عید الفطر کے دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور پورے ماہ میں رکھے تو اوربھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (سنی بہشتی زیور ص۳۴۷) اَلْغَرَض عیدُ الْفِطْرکا دن چھوڑ کر سارے مہینے میں جب چاہیں شش عید کے روزے رکھ سکتے ہیں ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
Comments