عشرۂ رحمت
ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے،رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ، ج۳،ص۱۳۷)نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جاتا ہے ،عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں۔( فیضانِ رمضان، ص ۲۱) اللہ عَزّوَجَلَّکے محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:’’روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔‘‘(اَلْجامِعُ الصَّغِیر، ص۱۴۶،حدیث۲۴۱۵) اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہاللہ عَزّوَجَلَّنے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ 2 سورۃ البقرۃآیت185 میں مقد س قراٰن میں خدائے رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالی شان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
تَرجَمَۂ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔اللہ عَزّوَجَلَّ تم پر آسانی چاہتا ہے اورتم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ عَزّوَجَلَّ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔
حضرتِسَیّدُناابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے: مکی مَدَنی سلطان، رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے : ’’جب ماہِ رَمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری رات تک بندنہیں ہوتے۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارَک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تَواللہ عَزّوَجَلَّاُس کے ہر سجدے کے عوض(یعنی بدلے میں ) اُس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اُس کے لئے جنت میں سُرخ یا قوت کا گھر بناتا ہے۔ (شُعَبُ الایمان، ج۳ ،ص ۳۱۴ ،حدیث: ۳۶۳۵ مُلَخَّصاً ) رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذِی شان ہے: جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ عَزّوَجَلَّان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عَزّوَجَلَّنظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔(شُعَبُ الایمان، ج۳، ص۳۰۳، حدیث۳۶۰۳)حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ رحمت عالم ، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ( مَ۔ثی۔رَہ) نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ(یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے روزے داروں کیلئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج ۲ ،ص۶۰، حدیث ۲۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّرَحمت کرنے پر آتا ہے تو یوں بھی سبب بنا تا ہے کہ کسی ایک عمل کواپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما دیتا ہے اور پھر اسی کے باعِث اُس پررَحمتوں کی بارِش کردیتا ہے ۔ لہٰذا اب ایک حدیثِ مبارَک پیش کی جاتی ہے جس میں مُتَعَدِّد ایسے لوگوں کا بیان کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی نیکی کے سبب اللہ تَعَالٰی کی گرفت سے بچ گئے اور رَحمتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّنے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔چنانچہ حضرت سَیِّدُنا عبدالرحمن بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے: ایک بار حضورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ آدم و بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’آج رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ
{۱} ایک شخص کی رُوح قبض کرنے کیلئے مَلکُ الموت(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) تشریف لائے لیکن اُس کاماں باپ کی اِطاعتکرناسامنے آگیا اور وہ بچ گیا۔
{۲} ایک شخص پر عذابِ قَبْر چھاگیا لیکن اُس کے وُضو(کی نیکی)نے اُسے بچالیا۔
{۳} ایک شخص کو شیاطین نے گھیر لیا لیکن ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ (کرنے کی نیکی ) نے اُسے بچالیا۔
{۴} ایک شخص کو عذاب کے فرشتوں نے گھیر لیا لیکن اُسے (اُس کی)نَماز نے بچالیا۔
{۵} ایک شخص کو دیکھا کہ پیاس کی شدّت سے زَبان نکالے ہوئے تھا اور ایک حوض پر پانی پینے جاتا تھا مگر لوٹادیا جاتا تھا کہ اتنے میں اُس کے روزے آگئے (اور اِس نیکی نے)اُس کو سیراب کردیا۔
{۶} ایک شخص کو دیکھا کہ جہاں انبیاءَ کرام (عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) حلقے بنائے ہوئے تشریف فرما تھے، وہاں ان کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن دھتکار دیا جاتا تھا کہ اتنے میں اُس کاغسل جنابت(کرنا) آیا او ر( اُس نیکی نے)اُس کومیرے پاس بٹھادیا۔
{۷} ایک شخص کو دیکھا کہ اُس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ، اوپر نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ اس اندھیرے میں حیران وپریشان ہے تو اُس کے حج وعمرہ آگئے اور (ان نیکیوں نے )اُس کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں پہنچا دیا۔
{۸} ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مُسلمانوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اُس کو منہ نہیں لگاتا توصلۂِ رِحمی (یعنی رشتے داروں سے حسن سلوک کرنے کی نیکی) نے مؤمنین سے کہا کہ تم اِس سے بات چیت کرو۔تو مسلمانوں نے اُس سے بات کرنا شروع کی۔
{۹} ایکشخص کے جسم اور چِہرے کی طرف آگ بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے بچا رہا ہے تواُس کاصدقہ آگیا اور اُس کے آگے ڈھال بن گیااور اُس کے سرپر سایہ فگن ہوگیا۔
{۱۰} ایک شخص کو زَبانیہ (یعنی عذاب کے مَخصوص فرشتوں )نے چاروں طرف سے گھیر لیا لیکن اُس کا اَمْرٌبِالْمَعْرُوفِ وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرآیا (یعنی نیکی کا حکم کرنے اور بُرائی سے منع کرنے کی نیکی آئی ) ا ور اُ س نے اُسے بچالیا اور رَحمت کے فرشتوں کے حوالے کردیا۔
{۱۱} ایکشخص کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل بیٹھا ہے لیکن اُس کے اور اللہ تَعَالٰی کے درمیان حجاب(ـیعنی پردہ)ہے مگر اُس کا حسنِ اَخلاق آیااِس (نیکی) نے اُس کو بچالیا اور اللہ تَعَالٰی سے مِلادیا۔
{۱۲} ایک شخص کو اُس کا اَعمال نامہ اُلٹے ہاتھ میں دیا جانے لگا تو اُس کا خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ آگیا اور(اِس عظیم نیکی کی بَرَکت سے) اُس کا نامۂ اَعمال سیدھے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
{۱۳} ایک شخص کی نیکیوں کا وَزن ہلکا رہا مگر اُس کی سخاوت آگئی اور نیکیوں کا وَزن بڑھ گیا۔
{۱۴} ایکشخص جہنم کے کَنارے پر کھڑا تھامگر اُس کا خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ آگیا اور وہ بچ گیا۔
{۱۵} ایک شخص جہنم میں گر گیا لیکن اُس کے خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں بہائے ہوئے آنسو آگئے اور (اِن آنسوؤں کی بَرَکت سے) وہ بچ گیا۔
{۱۶} ایک شخص پل صراط پر کھڑا تھا اور ٹہنی کی طرح لرزرہا تھا لیکن اُس کا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ حسن ظن (یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے اچھا گمان )آیا (اور اِس نیکی) نے اُسے بچالیا اور وہ پل صراط سے گزرگیا۔
{۱۷} ایک شخص پل صراط پر گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا کہ اُس کامجھ پر دُرُودِ پاک پڑھنا آگیا اور( اس نیکی نے) اُس کو کھڑا کرکے پل صراط پار کروا دیا۔
{۱۸} میری اُمت کاایک شخص جنت کے دروازوں کے پاس پہنچا تو وہ سب اس پر بند تھے کہ اس کا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی دینا آیا اور اُس کے لئے جنتی دروازے کھل گئے اور وہ جنت میں داخِل ہوگیا۔
چُغلی کا درد ناک عذاب
{۱۹} کچھ لوگوں کے ہونٹ کاٹے جارہے تھے میں نے جبرئیل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) سے دریافت کیا ، یہ کون ہیں ؟تو انہوں نے بتایاکہ یہ لوگوں کے درمیان چغل خوری کرنے والے ہیں ۔
الزامِ گناہ کی خوفناک سزا
{۲۰} کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکا دیا گیا تھا۔میں نے جبرئیل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگانے والے ہیں ۔‘‘(شرحُ الصُّدر ص۱۸۲ تا ۱۸۴، مُلَخّصاً)
مدینے کے دیوانو!رَمَضانُ الْمبارَک کی جلوہ گری تو کیا ہوتی ہے ، ہم غریبوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تَعَالٰی کے فضل و کرم سے رَحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کے واقعات جمع کرنے جائیں تو اتنے ہیں کہ جمع کرنا مشکل ہو جائے ۔ کاش ! ہم گنہگاروں کو بطفیل ماہِ رَمضان،سرورِ کون ومکان،مکی مَدَنی سُلطان،رَحمتِ عالمیان ،محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رَحمت بھرے ہاتھوں جہنم سے رِہائی کا پروانہ مل جائے ۔امامِ اہلِ سنّترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبارگاہِ رِسَالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کرتے ہیں :
تمنا ہے فرمائیے روزِ محشر
یہ تیری رِہائی کی چٹھی ملی ہے (حدائقِ بخشش ،ص۱۸۸)
Comments