اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فیضانِ عیدُ الْفطر
مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے خالی ہتھیلی پر دم کیا اور۔۔۔
ایک بار کسی بھکا ری نے کفار سے سو ال کیا، اُنہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا مولیٰ مشکل کشا، علیُّ الْمُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضر ہو کر دست سوال دراز کیا، آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا:’’ مٹھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔‘‘ (کفار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے! ) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مٹھی کھولی تو اُس میں ایک دِینار تھا! یہ کرامت دیکھ کر کئی کافر مسلمان ہو گئے۔ (راحتُ القلوب ص۵۰)
وِرد جس نے کیا دُرود شریف اور دل سے پڑھا دُرود شریف
حاجتیں سب رَواہوئیں اُس کی ہے عجب کیمیا دُرُود شریف
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو ! اللہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رَمضان شریف کے مبارَک مہینے کے مُتَعَلِّق ارشاد فرمایاہے کہ اِس مہینے کا پہلا عشرہ رَحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنَّم سے آزادی کا ہے۔ (ابن خُزَیمہ ج۳ص۱۹۲حدیث۱۸۸۷)
معلوم ہوا کہ رَمَضانُ الْمُبَارَک رَحمت ومغفرت اور جہنَّم سے آزادی کا مہینا ہے ،لہٰذا اِس رحمتوں اور برکتوں بھرے مہینے کے فوراً بعد ہمیں عید سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور عید الفطرکے روز خوشی کا اِظہار مستحب ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّکے فضل ورحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے ۔ چنانچہ پارہ11 سُوْرَۂ یُوْنُسْ کی آیت نمبر8 5 میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)
ترجَمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رَحمت، اور اِسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔
دل زندہ رہے گا:
نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان ، سردارِ دو جہان محبوبِ رحمن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان برکت نشان ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شبِ عیدالفطر اور شب عِیدُ الْاَضْحٰی)طلبِ ثواب کیلئے قیام کیا ،اُس دن اُس کا دِل نہیں مرے گا، جس دن (لوگوں کے) دِل مرجائیں گے۔‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۲)
جنت واجب ہوجاتی ہے:
ایک اور مقام پر حضرتِ سَیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے ، فرماتے ہیں : جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذُو الْحِجّہ شریف کی آٹھویں ، نویں اور دسویں رات (اِس طرح تین راتیں تو یہ ہوئیں ) اور چوتھی عِیدُ الفِطْر کی رات، پانچویں شَعْبانُ الْمُعظَّمکی پندرھویں رات (یعنی شبِ بَرَاء ت ) ۔ ( اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرْھِیْب ج۲ ص۹۸ حدیث ۲ )
معافی کا اعلان عام:
حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے : جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّاپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : ’’اے اُمَّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اُس ربِّ کریمعَزَّوَجَلَّکی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘ ۔ پھراللہ عَزَّوَجَلَّاپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرھِیْب ج۲ص۶۰حدیث۲۳)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! غور تو فرمائیے! عِیدُ الْفِطْر کا دِن کس قدر اَہم ترین دن ہے، اِس دِن اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت نہایت جوش پرہوتی ہے، دربارِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹا یا جاتا ۔ ایک طرفاللہ عَزَّوَجَلَّکے نیک بندےاللہ عَزَّوَجَلَّکی بے پایاں رَحمتوں اور بخششوں پر خوشیاں منارہے ہوتے ہیں تو دُوسری طرف مؤمنوں پراللہ عَزَّوَجَلَّکی اِتنی کرم نوازیاں دیکھ کر اِنسان کا بد ترین دشمن شیطان آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچِہ
شیطان کی بدحواسی:
حضرت سَیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہ(مُ۔نَبْ۔بِہْ)رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : جب بھی عید آتی ہے، شیطان چلا چلا کر روتا ہے ۔اِس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں : اے آقا!آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے آج کے دِن اُمّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں مشغول کردو۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۳۰۸)
کیا شیطان کامیاب ہے؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! شیطان پر عید کا دِن نہایت گراں گزرتا ہے لہٰذا وہ شیاطین کو حکم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لذاتِ نفسانی میں مشغول کردو!ایسا لگتا ہے،فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے کہ عبادات وحسنات کی کثرت وبہتات کرکے ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّکا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے،مگر افسوس ! صدکروڑ افسوس!اب اکثر مسلمان عید سعیدکا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں ! وَا حسرتا! اب تو عید منانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہودہ نقش و نگار بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّجاندار کی تصویر والے بھڑ کیلے کپڑے پہنے جاتے ہیں (بہار شریعت میں ہے کہ جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اُسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،نماز کے علاوہ بھی ایسا کپڑا پہننا ناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۲۷)) رَقص و سُرُود (سُ۔رُوْ۔د) کی محفلیں گرم کی جاتی ہیں ،گناہوں بھرے مَیلوں ، گندے کھیلوں ، ناچ گانوں اور فِلموں ڈِراموں کا اِہتمام کیا جاتا ہے اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلافِ سُنَّت و شریعت اَفعال میں برباد کیاجاتا ہے۔ افسوس !صَد ہزار افسوس! اب اِس مُبارَک دن کو کس قدر غلط کاموں میں گزاراجانے لگا ہے ۔ میرے اسلامی بھائیو!اِن خلافِ شرع باتوں کے سبب ہوسکتا ہے کہ یہ عید سعید ناشکروں کے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ بن جائے۔ لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجائیے ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے فضول خرچوں کو قراٰنِ پاک میں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چنانچہ پارہ سُوْرَۃُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْل کی آیت نمبر26 اور27 میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے۔
مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ’’ تفسیرِ صِراطُ الْجِنان‘‘ جلد5صفحہ447تا448 پراِن آیاتِ مبارک کے تحت ہے : { وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے’’تبذ یر ‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک دِرہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن ج ۳ص۱۷۲)
اِسرا ف کی گیارہ تعریفات:
اِسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علمائِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ،ان میں سے11تعریفات درج ذیل ہیں : {۱}غیرحق میں صرف کرنا{۲} اللہ تَعَالٰی کے حکم کی حد سے بڑھنا {۳}ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یا مروت کے خلاف ہو ،اوَّل(یعنی خلافِ شریعت خرچ کرنا) حرام ہے اور ثانی(یعنی خلافِ مروت خرچ کرنا) مکروہِ تنزیہی ۔ {۴}طاعت الٰہی کے غیر میں صرف کرنا {۵}شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا {۶}غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا {۷} دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا {۸}ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا {۹} حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا {۱۰}لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا {۱۱}بے فائدہ خرچ کر نا ۔
اِسراف کی واضح تر تعریف:غیر حق میں مال خرچ کرنا:
اعلٰی حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذِکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ہمارے کلام کا ناظر (یعنی نظر کرنے والا)خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبد اللہ کی تعریف ہے جسے رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعلم کی گٹھڑی فرماتے اور جو خلفائے اَربعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورثِ عِلْم ہے رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷)
تبذیر اوراِ سراف میں فرق:
اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے’’تبذیر‘‘اور ’’اِسراف‘‘ میں فرق سے متعلق جو کلام ذِکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں علما ئِ کرام کے دو قول ہیں : (1)…تبذیر اور اِسراف دونوں کے معنیٰ ’’ناحق صَرف کرنا ‘‘ ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ہے۔ (2)…تبذیر اور اِسراف میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں اِسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عبث میں صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مطلقاً گناہ نہیں توچونکہ اِسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘ (اس کی نافرمانی میں مت دے) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں معصیت ہیں اور اِسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷ تا۹۳۹ ملخّصاً)
انسان و حیوان کا فرق:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اِنسان اور حَیوان میں جو مابِہِ الْاِمْتِیاز (یعنی فرق کرنے والی چیز) ہے وہ عقل وتدبیر، دُوربینی اور دُور اَندیشی ہے، عموماً حیوان کو’’ کل ‘‘کی فکر نہیں ہوتی اور عام طور پر اُس کی کوئی حرکت کسی حکمت کے ماتحت نہیں ہوتی، برخلاف انسان کے اور مسلمان کو تو نہ صرف’’دُنیوی کل‘‘ کی بلکہ اِس دُنیوی کل کے بعد آنے والی ’’اُخروی(اُخ۔رَ،وی) کل‘‘ کی بھی فکر ہوتی ہے۔یقینا سمجھدار انسان وُہی ہے بلکہ حقیقۃًانسان ہی وہ ہے جو’’اُخروی کل‘‘ یعنی آخرت کی بھی فکر کرے، حکمتِ عملی سے کام لے اور اس فانی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے باقی آخرت کیلئے کوئی اِنتظام کرلے۔ آہ!اب تو اکثرلوگ اپنی زندگی کا مقصد مال کمانا، خوب ڈٹ کر کھانا اورپھر خوب غفلت کی نیند سوجانا ہی سمجھتے ہیں ۔ ؎
کیا کہوں اَحباب کیا کارِ نمایاں کرگئے!
میٹرک کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مرگئے!!
زندگی کا مقصد کیا ہے ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! زندگی کا مقصد صرف بڑی بڑی ڈِگریاں حاصِل کرنا، کھانا پینا ، اور مزے اُڑانا نہیں ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّنے آخر ہمیں زندگی کیوں مرحمت فرمائی؟ آئیے ! قراٰنِ پاک کی خدمت میں عرض کریں کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّکی سچی کتاب! تو ہی ہماری رَہنمائی فرما کہ ہمارے جینے اور مرنے کا مقصد کیا ہے؟قراٰنِ عظیم سے جواب مل رہا ہے:
خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- (پ۲۹، الملک:۲)
ترجَمۂ کنزالایمان:مَوت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (دُنیاوی زندگی میں )تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔
( یعنی اِس موت و زندگی کو اِس لئے پیدا کیا گیا تاکہ آزمایا جائے کہ)اس دنیا کی زندگی میں کون زیادہ مطیع (فرماں بردار ) ومخلص ہے۔ (خزائن العرفان ص ۱۰۴۰ )
گھر ہی پر ولادت ہوگئی:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیطا ن کے وار سے بچنے کی کوشِش کے ضمن میں عید کی حسین ساعتیں عاشِقانِ رسول کے ساتھ
مَدَنی قافلے میں گزاریئے۔ آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار عرض کرتا ہوں :جہلم( صوبۂ پنجاب، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی نے کچھ اس طرح بتایا کہ شادی کے کم و پیش 6 ماہ بعد گھر میں ’’ اُمید‘‘ کے آثار ظاہر ہوئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کا کیس پیچیدہ ہے، خون کی بھی کافی کمی ہے، ہوسکتا ہے آپریشن کرنا پڑے! میں نے اُسی وَقت ایک ماہ کے مَدَنی قافلے کا مسافر بننے کی نیت کر لی، اور چند روز کے بعد عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی قافلے کی بَرَکت سے ایسا کرم ہو گیا کہ نہ اَسپتال جانے کی نوبت آئی اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کو دِکھانا پڑا ،گھر ہی میں مَدَنی مُنّے کی ولادت ہو گئی۔
گھر میں ’’ اُمّید‘‘ ہو، اس کی تمہید ہو جلد ہی چل پڑیں ، قافِلے میں چلو
زَچہ کی خیر ہو، بچّہ بالخیر ہو اُٹھئے ہمت کریں ، قافِلے میں چلو (وسائلِ بخشش ص۶۷۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱} لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ 11 بارکسی رکابی( یا کاغذ) پر لکھ کر دھو کر عورت کو پلا دیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حَمْل کی حفاظت ہو گی۔ جس عورت کو دُودھ نہ آتا ہو یا کم آتا ہو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کیلئے بھی یہ عمل مُفید ہے، چاہیں تو ایک ہی دن پلائیں یا کئی روز تک روزانہ ہی لکھ کر پلائیں ہر طرح سے اختیار ہے{۲}یا حَیُّ یا قَیُّومُ 111 بار کسی کاغذ پر لکھ کر حامِلہ کے پیٹ پر باندھ دیجئے اور وِلادت کے وَقت تک باندھے رہئے۔( ضَرورتاً کچھ دیر کیلئے کھولنے میں حَرَج نہیں ) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حَمْل بھی محفوظ رہے گا اور بچہ بھی صحت مند پیدا ہو گا۔
عید یا وعید:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!لائقِ عذاب کاموں کااِرْتکاب کر کے ’’یومِ عید‘‘ کو اپنے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ نہ بنائیے۔ اور یاد رکھئے! ؎
لَیْسَ الْعِیدُ لِمَنْ لَّبِسَ الْجَدِیْد اِنَّمَاالْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْد
(یعنی عید اُس کی نہیں ،جس نے نئے کپڑے پہن لئے ،عید تو اُس کی ہے جو عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے ڈر گیا )
اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعالٰی بھی تو عید مناتے رہے ہیں :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل گویا لوگ صِرف نئے نئے کپڑے پہننے اورعمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی مَعَاذَ اللہ عید سمجھ بیٹھے ہیں ۔ذرا غور توکیجئے !ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنبھی توآخر عید مناتے رہے ہیں ، مگر اِن کے عید منانے کا انداز ہی نرالا رہا ہے،وہ دُنیا کی لذتوں سے کوسوں دُور بھاگتے رہے ہیں اور ہر حال میں اپنے نفس کی مخا لفت کرتے رہے ہیں ۔ چنانچہ
عید کا انوکھا کھانا:
حضرت سَیِّدُنا ذُو النُّون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی نے دس برس تک کوئی لذیذ کھانا تناول نہ فرمایا،نفس چاہتا رہا اورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نفس کی مخالفت فرماتے رہے، ایک بار عید مبارَک کی مقدس رات کو دِل نے مشورہ دیا کہ کل اگر عِیدِ سعید کے روزکوئی لذیذ کھانا کھالیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اِس مشورے پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی دِل کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی غرض سے فرمایا: ’’میں اَوّلاً دو رَکعت نفل میں پورا قراٰنِ پاک ختم کروں گا، اے میرے دِل! تو اگراِس بات میں میرا ساتھ دے تو کل لذیذ کھانا مل جائے گا۔‘‘لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دو رَکعَت ادا کی اور اِن میں پورا قراٰنِ کریم ختم کیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دِل نے اِس اَمرمیں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ساتھ دیا۔(یعنی دونوں رَکعتیں دِل جمعی کے ساتھ ادا کرلی گئیں ) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عید کے دِن لذیذ کھانا منگوایا، نِوالہ اُٹھاکر منہ میں ڈالنا ہی چاہتے تھے کہ بے قرار ہوکر پھر رکھ دیا اور نہ کھایا۔لوگوں نے اِس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: جس وَقت میں نوالہ منہ کے قریب لایا تو میرے نفس نے کہا: دیکھا ! میں آخر اپنی دس سال پرانی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو گیا نا!میں نے اُسی وَقت کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں تجھے کامیاب نہ ہونے دوں گااور ہر گزہرگز لذیذ کھانا نہ کھاؤں گا۔چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لذیذ کھانا کھانے کا اِرادہ ترک کردیا۔اتنے میں ایک شخص لذیذ کھانے کا طباق اٹھائے حاضر ہوا اور عرض کی: یہ کھانامیں نے رات اپنے لئے تیار کیا تھا، رات جب سویا تو قسمت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی ، خواب میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت کی سعادت حاصِل ہوئی، میرے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا: اگر تو کل قیامت کے روز بھی مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ کھانا ذُوالنُّون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کے پاس لے جا اور اُن سے جا کر کہہ کہ ’’حضرتِ مُحمّد بن عبدُ اللہ بن عبدُ المُطَّلِب (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) فرماتے ہیں کہ دَم بھر کیلئے نفس کے ساتھ صلح کرلواور چند نوالے اِس لذیذ کھانے سے کھا لو ۔ ‘ ‘ حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی یہ سن کر جھوم اُٹھے اور کہنے لگے: ’’میں فرمانبردار ہوں ،میں فرمانبردار ہوں ۔‘‘اور لذیذ کھانا کھانے لگے ۔ (تذکرۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۱۱۷)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
رب ہے معطی یہ ہیں قاسم رِزق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں (حدائق بخشش ص۴۸۲،۴۸۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روح کو بھی سجائیے:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے دِن غسل کرنا ، نئے یا دُھلے ہوئے عمدہ کپڑے پہننا اور عطرلگانا مستحب ہے،یہ مستجبات ہمارے ظاہری بدن کی صفائی اور زینت سے متعلق ہیں ۔لیکن ہمارے اِن صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور نہائے ہوئے اور خوشبو ملے ہوئے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی ہم پر ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان خدائے رَحمنعَزَّوَجَلَّکی محبت و اِطاعت اور امّت کے غمخوار، دو جہاں کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی اُلفت وسُنَّت سے خوب سجی ہوئی ہونی چائیے ۔
نجاست پر چاندی کا وَرَق:
ذرا سوچئے توسہی ! روزہ ایک بھی نہ رکھا ہو ، سارا ماہِ رَمضان اللہ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانیوں میں گزرا ہو،بجائے عبادات کے ساری ساری راتیں ،فلم بینیوں ، گانے باجوں اورآوارہ گَردیوں میں گزری ہوں ، اپنے جسم و رُوح کو دِن رات گناہوں میں ملوث رکھا ہو اور آج عید کے دِن کے اِنگلش فیشن والے بے ڈھنگے کپڑے پہن بھی لئے تو اسے یوں سمجھئے کہ گویا ایک نجاست تھی جس پر چاندی کا وَرَق چسپاں کرکے اُس کی نمائش کردی گئی۔
عید کس کے لیے ہے؟:
سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکی مَحَبَّت سے سرشار دیوانو! سچی بات تویہی ہے کہ عید اُن خوش بخت مسلمانوں کاحصہ ہے جنہوں نے ماہِ محترم، رَمَضانُ المُبارک کو رَوزوں ، نمازوں اور دیگر عبادتوں میں گزارا۔تو یہ عید اُن کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے مزدوری ملنے کا دِن ہے۔ ہمیں تواللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہنا چاہئے کہ آہ !ماہِ محترم کا ہم حق ادا ہی نہ کر سکے۔
سیدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عید:
حضرتِ علامہ مولانا عبد المصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں : عید کے دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ در وا زہ بند کرکے زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی: یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: ’’ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ الْوَعِیْد‘‘یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے نَمازو روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دِن ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رَد کر کے اُس کے منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے (مزید انکساراً فرمایا:) اور میں تواِس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ!’’اَنَا لَا اَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْلِیْنَ اَمْ مِنَ الْمَطْرُوْدِیْنَ ‘‘ یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہُوں یا رَد کردیا گیا ہوں ۔ (نورانی تقریریں ص۱۸۴)
عید کے دن عمر یہ رو رو کر
بولے نیکوں کی عید ہوتی ہے (وسائل بخشش ص۷۰۷)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
ہماری خوش فہمی:
اللہ اکبر!(عَزَّوَجَلَّ)مَحَبَّت والو!ذرا سوچئے ! خوب غور فرمائیے! وہ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کو مالک جنت، تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہری ہی میں جنت کی بشارت عنایت فرمادی تھی۔ اُن کے خوف وخشیت کا تو یہ عالم ہو اور ہم جیسے نکمے اور باتونی لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نیکی کے’’ن‘‘کے نقطے تک تو پہنچ نہیں پاتے مگر خوش فہمیکا حال یہ ہے کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب کوئی رہا ہی نہیں !اِس رِقت انگیز حکایت سے اُن لوگوں کو خصوصاًدرسِ عبرت حاصِل کرنا چائیے جو اپنی عبادات پر ناز کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور بلا مصلحت شرعی اپنے نیک اعمال مَثَلاً نَماز، روزہ ، حج ، مساجد کی خدمت ،خلقِ خدا کی مدد اور سماجی فلاح وبہبود وغیرہ وغیرہ کاموں کا ہرجگہ اِعلان کرتے پھرتے ، ڈَھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے ، بلکہ اپنے نیک کاموں کی مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اخبارات ورَسائل میں تصاویر تک چھپوانے سے گریز نہیں کرتے۔ آہ! اِن کا ذِہن کس طرح بنایا جائے!اِن کو اخلاصِ نیت کی سوچ کس طرح فراہم کی جائے!اِنہیں کس طرح باوَر کرایا جائے کہ اپنی نیکیوں کا اِعلان کرنے میں رِیا کاری کی آفت میں پڑنے کا شدید خدشہ ہے۔ اور اپنا فوٹو چھپوانا؟ توبہ! توبہ! اپنے اعمال کی نمائش کا اتنا شوق کہ فوٹو جیسے حرام ذَرِیعے کو بھی نہ چھوڑا گیا۔اللہ عَزَّوَجَلَّرِیا کاری کی تَباہ کاری ، ’’مَیں مَیں ‘‘ کی مصیبت اور اَنانیت کی آفت سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
شہزادے کی عید:
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ عید کے دِن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رَو پڑے، بیٹے نے عر ض کی:پیارے اباجان! کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا:میرے لال ! مجھے اَندیشہ ہے کہ آج عید کے دِن جب لڑکے تمہیں اِس پرانی قمیص میں دیکھیں تو کہیں تمہارا دِل نہ ٹوٹ جائے! بیٹے نے جواباً عرض کیا: دِل تو اُس کا ٹوٹے جو رِضائے اِلٰہی عَزَّوَجَلَّ کے کام میں ناکام رہا ہویا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو، مجھے اُمید ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رِضا مندی کے طفیلاللہ عَزَّوَجَلَّبھی مجھ سے راضی ہو جائے گا۔یہ سن کر حضرتِ عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اُس کیلئے دُعا فرمائی۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۰۸ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
شہزادیوں کی عید:
امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُ الْعَزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں عید سے ایک دِ ن قبل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہزادیاں حاضر ہوئیں اور بولیں :’’ ابو جان! عید کے دِن ہم کون سے کپڑے پہنیں گی؟ ‘‘فرمایا: ’’یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں ، اِنہیں دھو لو، کَل پہن لینا! ‘‘نہیں ! ابو جان! ہمیں نئے کپڑے بنوادیجئے،‘‘ بچیوں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’میری بچیو!عید کا دِناللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرنے ،اُ س کا شکر بجالانے کا دِن ہے، نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں ! ‘‘ ’’ ابو جان! ! آپ کا فرمانا بیشک دُرُست ہے لیکن ہماری سہیلیاں ہمیں طعنے دیں گی کہ تم امیرُ المؤمنین کی لڑکیاں ہو اور عید کے روز بھی وُہی پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں ! ‘‘ یہ کہتے ہوئے بچیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ بچیوں کی باتیں سن کر امیرُالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دِل بھی پسیج گیا۔ خازِن (وزیر مالیات) کو بلا کر فرمایا:’’مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو۔ ‘‘ خازِن نے عرض کی: ’’حضور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے؟‘‘ فرمایا: ’’جَزَاکَ اللّٰہ!بے شک! تم نے صحیح اور عمدہ بات کہی ۔ ‘‘ خازِن چلا گیا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بچیوں سے فرمایا: ’’پیاری بیٹیو! اللہ و رَسُولَ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی رِضا پر اپنی خواہشات قربان کردو۔‘‘ (مَعْدَنِ اَخلاق حصۂ اوّل ص ۲۵۷ تا ۲۵۸ بتغیرٍ قلیل) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
والد مرحوم پر کرم:
احتیاطوں بھرا مَدَنی ذہن بنانے کیلئے مَدَنی قافِلے میں سفر کی سعادت حاصِل کیجئے ، مَدَنی قافلے کی برکتوں کے کیا کہنے ! نشتربستی( بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی نے جو کچھ بیان کیاوہ بِالتَّصَرُّفعرض کرتا ہوں : میں نے اپنے والدِ مرحوم کو خواب میں اِنتِہائی کمزوری کی حالت میں برہنہ (بَ۔رَہ۔نَہ)کسی کے سہارے پر چلتا ہوا دیکھا۔ مجھے تشویش ہوئی۔ میں نے ایصالِ ثواب کی نیت سے ہر ماہ تین دن کے مَدَنی قافلے میں سفر کی نیت کر لی اور سفر شروع بھی کر دیا۔ تیسرے ماہ مَدَنی قافلے سے واپسی کے بعد جب گھر پر سویا تو میں نے خواب میں یہ دِلکش منظر دیکھا کہ والد مرحوم سبزسبز لباس زیبِ تن کئے بیٹھے مسکرا رہے ہیں اور ان پر بارِش کی ہلکی پھلکی پھوار برس رہی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَدَنی قافلے میں سفر کی اَھَمِّیَّت مجھ پر خوب اُجاگر ہوئی اور اب پکی نیت ہے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزّوَجَلَّ ہر ماہ تین دن کیلئے عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر جاری رکھوں گا ۔
قافلے میں ذرا مانگو آکر دُعا پاؤ گے نعمتیں ، قافِلے میں چلو
خوب ہوگا ثواب، اور ٹلے گا عذاب پاؤ گے بخششیں ، قافلے میں چلو
جو کہ مفقود ہو وہ بھی موجود ہو اِنْ شاءَ اللہ چلیں ، قافلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۷،۶۷۲،۶۷۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضور غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی عید:
اللہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے موجب صد درسِ عبرت ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حضور سَیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی شان بے حد اَرفع واعلٰی ہے ، اِس کے باوجودآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمارے لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں ! سنئے اور عبرت حاصِل کیجئے ۔ ؎
خلق گَوید کہ فر د ا روزِ عید اَسْت خوشی دَررُوحِ ہر مؤمن پدید اَسْت
دَراں رَوزے کہ بااِیماں بمیرم مِرادَر مُلک خودآں رَوزِ عید اَسْت
یعنی ’’لوگ کہہ رہے ہیں ،’’کل عید ہے!کل عید ہے!‘‘او رسب خوش ہیں ۔ لیکن میں تو جس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا ، میرے لئے تو وُہی دِن عید ہوگا ۔‘‘
سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ) سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ)کیا شانِ تقوی ہے ! اتنی بڑی شان کہ اَولیائِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے سردار! اور اِس قَدَر تواضع واِنکِسار ! ! اس میں ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں سمجھا یا جا رہا ہے کہ خبردار! ایمان کے مُعامَلے میں غفلت نہ کرنا ،ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں لگے رہنا، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اور معصیت کے سَبَب ایمان کی دَولت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ۔
رضا ؔ کا خاتمہ بِالْـخیر ہوگا
اگر رحمت تری شامل ہے یاغوث (حدائقِ بخشش ص۲۶۳)
ایک ولی کی عید:
حضرت سَیِّدُنا شیخ نجیب الدین مُتَوَکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بھائی اور خلیفہ ہیں ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کالقب مُتَوَکِّل ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 70برس شہر میں رہے اور کوئی ظاہری ذَرِیعۂ مَعَاش نہ ہونے کے باوجود اہل وعیال نہایت اطمینان سے زندگی بسر کرتے رہے۔ ایک بار عید کے دِن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے گھر میں بہت سے مہمانجمع ہوگئے ، گھر میں خورد و نوش (یعنی کھانے پینے) کا کوئی سامان نہیں تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بالاخانے پر جا کر یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگئے اور دِل ہی دل میں یہ کہہ رہے تھے: ’’آج عید کا دِن ہے اور میرے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ۔‘‘ اچانک ایک شخص چھت پرظاہر ہوا، اُس نے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان پیش کیااور کہا: اے نجیب الدین ! تمہارے توَکُّل کی دُھوم مَلاءِ اعلٰی (یعنی فرشتوں ) میں مچی ہوئی ہے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایسے خیال( یعنی کھانا طلبی) میں مشغول ہو! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’حق تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ میں اپنی ذات کے لئے نہیں صرف اپنے مہمانوں کے باعث اِس طرف مُتَوَجِّہ ہوگیا تھا۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا نجیب الدین مُتَوکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ صاحبِ کرامت ہونے کے باوجود اِنتہائی مُنْکَسِرُالْمِزاج تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اِنکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز ایک فقیر بہت دُور سے ملاقات کیلئے آیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا کہ کیا نجیب الدین مُتَوَکِّل(یعنی توکُّلکرنے والا) آپ ہی ہیں ؟ تو اِنکساراً فرمایا کہ بھائی! میں تو نجیب الدین مُتَأَکِّل(یعنی بہت زیادہ کھانے والا ) ہوں ۔ ( اَخبارُ الاخیار ص۶۰مُلَخّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
کرامت کا ایک شعبہ:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اِس حکایت سے معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّجب چاہتا ہے اپنے دوستوں کی ضروریات کاغیب سے انتظام فرما دیتا ہے ۔ بوقت ضرورت کھانا، پانی وغیرہ ضروریات ِ زندگی کا اچانک حاضر ہوجانا بزرگوں سے کرامت کے طور پر وُقوع میں آتا ہے۔ چنانچہ ’’ شرحِ عقائدِنسفیہ‘‘میں جہاں کرامت کی چند اَقسام کا بیان ہے وَہاں یہ بھی مَذکور ہے کہ ضرورت کے وَقت کھانے پانی کا حاضر ہوجانا بھی کرامت ہی کا ایک شعبہ ہے ۔بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکے خداداد تصرفات وکرامات کا کیا کہنا ؟یہ ایسے مقبولانِ بارگاہِ خداوندیعَزَّوَجَلَّہوتے ہیں کہ اُن کی زَبانِ پاک سے نکلی ہوئی بات اور دِل میں پیدا ہونے والی خواہشات ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّاپنی رحمت سے پوری فرما دیتا ہے۔
ایک سخی کی عید:
سَیِّدُنا عبدُ الرَّحمٰن بِن عَمْرْو اَوْزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَیان کرتے ہیں کہ عِیْدُ الفِطْر کی شب دروازے پر دَستک ہوئی ، دیکھا تومیرا ہمسایہ کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا:کہو بھائی !کیسے آنا ہوا؟اُس نے کہا: ’’کل عید ہے لیکن خرچ کیلئے کچھ نہیں ،اگر آپ کچھ عنایت فرمادیں تو عزت کے ساتھ ہم عید کا دِن گزارلیں گے۔‘‘میں نے اپنی بیوی سے کہا: ہمارا فلاں پڑوسی آیا ہے اُس کے پاس عید کیلئے ایک پیسہ تک نہیں ، اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس دِرہم ہم نے عید کیلئے رکھ چھوڑے ہیں اس کو پیش کر دیں ہمیں اللہ تَعَالٰی اور دیدے گا۔ نیک بیوی نے کہا: بہت اچھا۔ چنانچہ میں نے وہ سب دِرہم اپنے ہمسائے کے حوالے کردئیے، وہ دُعائیں دیتا ہوا چلاگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کسی نے دروازہ کَھٹکَھٹایا۔ میں نے جونہی دروازہ کھولا، ایک آدمی آگے بڑھ کر میرے قدموں پر گر پڑا اور رو روکر کہنے لگا: میں آپ کے والد کابھاگا ہوا غلام ہوں ، مجھے اپنی حرکت پر بہت ندامت لاحق ہوئی توحاضر ہو گیا ہوں ، یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں قبول فرمالیجئے، آپ میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام ۔میں نے وہ دِینار لے لئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا: خدا عَزَّوَجَلَّکی شان دیکھو!اُس نے ہمیں دِرہم کے بدلے دِینار عطا فرمائے(پہلے درہم چاندی کے اور دینار سونے کے ہوتے تھے)! اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّکی شان بھی کتنی نرالی ہے کہ اُس نے پچیس دِرہم(چاندی کے سکے) دینے والے کو آن کی آن میں پچیس دِینار (سونے کے سکے) عطا فرمادئیے۔ اور بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکا اِیثار بھی خوب تھا کہ وہ اپنی تمام تر آسائشیں دُوسرے مسلمانوں کی خاطر قربان کردیتے تھے۔
قوتِ سماعت بحال ہوگئی:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے دل میں عظمت مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمبڑھانے، سینے میں شمعِ اُلفتِ مُصطَفٰے جلانے اور عید سعید کی حقیقی خوشیاں پانے کیلئے ہو سکے تو چاند رات کو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر کی سعادت حاصل کیجئے۔ مَدَنی قافلے کی برکتیں تو دیکھئے! بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے، کوئٹہ میں ہونے والے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع میں شریک ایک بہرے اسلامی بھائی نے ہاتھوں ہاتھ تین دن کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کی سعادت حاصِل کی ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ دَورانِ سفر ہی ان کی قوتِ سماعت بحال ہو گئی اور وہ عام لوگوں کی طرح سننے لگے۔
کان بہرے ہیں گر، رکھو ربّ پر نظر ہوگا لطف خدا، قافلے میں چلو
دُنیوی آفتیں ، اُخروی شامتیں دور ہوں گی ذرا، قافِلے میں چلو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
صدقۂ فطر:
اللہ تبارَک وَ تعالیٰ پارہ 30 سُوْرَۃُ الْاَعْلٰیکی آیت نمبر 14تا15 میں ارشاد فرماتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی’’ خَزائِنُ العِرفان‘‘ میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂِ فطر دینا اور رب کا نام
لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص۱۰۹۹)
صدقۂ فطر واجب ہے:
سرکار مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو، ’’صَدَ قَۂِ فِطْر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
صدقۂ فطر لغو باتوں کا کفارہ ہے:
حضرت سَیِّدُنا اِبنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : مَدَنی سرکار، غریبوں کے غَمخوارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمنے صَدَقَۂِِ فِطْرمقرر فرمایا تاکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزوں کی طَہارت (یعنی صفائی) ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورِش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ (ابوداوٗد ج۲ص۱۵۸حدیث۱۶۰۹)
روزہ معلق رہتا ہے:
حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالِکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جب تک صَدَقَۂِ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)
’’عید‘‘ کی خوشیاں مبارک ‘‘ کے سولہ حروف
کی نسبت سے فطرے کے16مَدَنی پھول
{۱}صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’صاحب نصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نصاب ’’حاجاتِ اَصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارِغ ہو۔
(ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
{۲}جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کامالِ تجارت ہو (اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں ) یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ([1])۔
{۳} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مَجْنُون (یعنی پاگل ) بھی اگر صاحبِ نصاب ہوتو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی (یعنی سرپرست) ادا کرے۔ (ردّالْمُحتار ۳ص۳۶۵)’’صَدَقَۂِ فِطْر‘‘ کے لئے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (مَثَلاًعمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملَخَّصاً)
{۴} مالک نصاب مردپر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)
{۵} مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملَخَّصاً)
{۶}والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہصَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ (دُرَّمُختار ج۳ص۳۶۸)
{۷} ماں پراپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔ ( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
{۸} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔ (دُ رِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ص۳۷۰)
{۹} کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔ (رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
{۱۰} بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذِمے ہے، وہ اگر اِن کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازتفطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
{۱۱}بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)
{۱۲} عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ،اگر صبحِ صادِق کے بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از عا لمگیری ج۱ص۱۹۲)
{۱۳} صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھیفطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (اَیضاً)
{۱۴}اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (اَیضاً)
{۱۵}صَدَقَۂِ فِطْر کے مصا رِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کوفطرہبھی نہیں دے سکتے۔ (اَیضاًص۱۹۴ مُلَخّصاً)
{۱۶}سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے
مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔
صدقۂ فطر کی مقدار :
گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۱،دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲) ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو ا۳۵۱کاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پَچھتَّر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (اَیضاً)
قبرمیں ایک ہزار انوار داخل ہوں :
منقول ہے کہ جو شخص عیدکے دِن تین سو مرتبہ ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘‘ پڑھے اورفوت شدہ مسلمانوں کی اَرواح کو اِس کا ایصالِ ثواب کرے تو ہر مسلمان کی قَبْر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب وہ پڑھنے والا خود مرے گا، اللہ تَعَالٰی اُس کی قَبْر میں بھی ایک ہزار انوار داخِل فرمائیگا۔ (مُکَاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۸)
نمازِ عید سے قبل کی ایک سنت:
میٹھے میٹھے اِسلا می بھائیو!اب اُن باتوں کا بیان کیا جاتا ہے جو عیدین (یعنی عید الفطر اور بقر عید دونوں ) میں سُنَّت ہیں ۔چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شہنشاہِ نُبُوَّت ، پیکر جودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم عِیْدُ الفِطْر کے دِن کچھ کھا کر نَماز کیلئے تشریف لے جاتے تھے اور عیدالْاَضْحٰی کے روز اُس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک نَماز سے فارِغ نہ ہو جاتے۔ ( ترمذی ج۲ ص ۷۰ حدیث ۵۴۲) اور ’’بخاری ‘‘ کی رِوایت حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے کہ عیدالفطر کے دِن(نمازِ عید کیلئے) تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھَجوریں نہ تناول فرمالیتے او روہ طاق ہوتیں ۔(بُخاری ج۱ ص ۳۲۸ حدیث ۹۵۳) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ نبیِّ رَحمت، شفیعِ امّت، شہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمعید کو (نمازِ عید کیلئے )ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دُوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔ ( تِرمذِی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱)
نمازِ عید کا طریقہ(حنفی)
پہلے اِس طرح نیت کیجئے : ’’میں نیت کرتا ہوں دو رَکعَت نَماز عیدُ الْفِطْر( یا عیدُالْاَضْحٰی )کی ،ساتھ چھ زائد تکبیروں کے ،واسِطے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ، پیچھے اِس امام کے‘‘ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثنا پڑھئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہتے ہوئے لٹکا دیجئے ،پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر لٹکا دیجئے، پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر باندھ لیجئے یعنی پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھئے اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیر میں لٹکائیے اور چوتھی میں ہاتھ باند ھ لیجئے ، اس کو یوں یادرکھئے کہ جہاں قِیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہیں ۔ پھر امام تَعَوُّذاور تَسْمِیَہ آہستہ پڑھ کر اَ لْحَمْدُ شریف اور سورۃ جہر( یعنی بلند آواز ) کے ساتھ پڑھے، پھر رُکوع کرے ۔ دوسری رَکعَت میں پہلے اَ لْحَمْدُ شریف اور سورۃ جہر کے ساتھ پڑھے ، پھر تین بار کان تک ہاتھ اٹھا کر اَللہُ اَکْبَرکہئے اور ہاتھ نہ باندھئے اور چوتھی باربغیر ہاتھ اُٹھا ئے اَللہُ اَکْبَرکہتے ہوئے رُکوع میں جائیے اور قاعدے کے مطابق نماز مکمَّل کرلیجئے ۔ ہر دو تکبیروں کے درمیان تین بار ’’ سُبْحٰنَ اللہِ ‘‘ کہنے کی مقدار چپ کھڑا رَہنا ہے۔ ( ماخوذ اًبہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱ دُرِّمُختار ج۳ص۶۱ وغیرہ)
عید کی اَدھوری جماعت ملی تو۔۔۔۔؟
پہلی رَکعَت میں امام کے تکبیریں کہنے کے بعد مقتدی شامِل ہوا تو اُسی وَقت (تکبیر تحریمہ کے علاوہ مزید) تین تکبیریں کہہ لے اگر چہ امام نے قرائَ ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے اگرچہ امام نے تین سے زِیادہ کہی ہوں اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رُکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیر یں کہہ لے اور اگر امام کو رُکوع میں پایا اور غالِب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رُکوع میں پالے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رُکوع میں جائے ورنہاَللہُ اَکْبَرکہہ کر رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رُکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا تو باقی ساقط ہو گئیں ( یعنی بَقِیَّہ تکبیریں اب نہ کہے) اور اگر امام کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) جب اپنی( بَقِیَّہ ) پڑھے اُس وَقت کہے۔ اور رُکوع میں جہاں تکبیرکہنا بتایا گیا اُس میں ہاتھ نہ اُٹھائے اور اگر دوسری رَکعَت میں شامل ہوا تو پہلی رَکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اُس وَقت کہے۔ دوسری رَکعَت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پاجائے فبھا ( یعنی تو بہتر)۔ ورنہ اس میں بھی وُہی تفصیل ہے جو پہلی رَکعَت کے بارے میں مذکور ہوئی۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۲، دُرِّمُختار ج۳ص۶۴، عالمگیری ج۱ص۱۵۱)
عید کی جماعت نہ ملی تو کیا کرے؟
امام نے نَمازِ عید پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ (بغیر جماعت کے) نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رَکعَت چاشت کی نماز پڑھے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۶۷)
عید کے خطبے کے اَحکام:
نَماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خُطبۂ جُمُعہ میں جو چیزیں سنَّت ہیں اس میں بھی سنَّت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ ۔صِرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جُمُعہ کے پہلے خطبے سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنَّت تھا اور اِس میں نہ بیٹھنا سنَّت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے پیشتر 9 بار اور دوسرے کے پہلے7 بار اور منبر سے اُترنے کے پہلے 14 باراَللہُ اَکْبَرکہنا سنَّت ہے اور جمعہ میں نہیں ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۳، دُرِّمُختار ج۳ص۶۷، عالمگیری ج۱ص۱۵۰)
’’دیدو عیدی میں غم مدینے کا‘‘کے بیس
حروف کی نسبت سےعید کے20 مدنی پھول
عید کے دِن یہ اُمُور مُسْتَحَب ہیں :
٭ حجامت بنوانا(مگر زُلفیں بنوایئے نہ کہ اَنگریزی بال)٭ناخن ترشوانا٭ غسل کرنا٭ مسواک کرنا(یہ اُس کے علاوہ ہے جو وُضو میں کی جاتی ہے ) ٭ اچھے کپڑے پہننا ، نئے ہوں تو نئے ورنہ دُھلے ہوئی٭ خوشبو لگانا ٭انگوٹھی پہننا (جب کبھی انگوٹھی پہنئے تو اِس بات کا خاص خیال رکھئے کہ صِرف ساڑھے چار ماشے( یعنی چار گرام 374ملی گرام)سے کم وَزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنئے ، ایک سے زیادہ نہ پہنئے اور اُس ایک انگوٹھی میں بھی نگینہ ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں ، بغیر نگینے کی بھی مت پہنئے، نگینے کے وَزن کی کوئی قید نہیں ، چاند ی کا چھلا یا چاندی کے بیان کردہ وَزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلا مرد نہیں پہن سکتا) ٭ نَمازِ فَجْر مسجِد محلہ میں پڑھنا٭ عیدُ الْفِطْر کی نَماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا، تین ، پانچ ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ۔کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے۔ اگر نَماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گناہ نہ ہوا مگر عشا تک نہ کھایا تو عتاب (یعنی ملامت) کیا جائے گا ٭ نَمازِ عید ، عیدگاہ میں ادا کرنا ٭عید گاہ پیدل چلنا٭ سواری پر بھی جانے میں حرج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پرقدرت ہو اُس کیلئے پیدل جانا اَفضل ہے اور واپسی پر سُواری پر آنے میں حرج نہیں ٭ نَمازِ عید کیلئے عید گاہ جلد چلے جانا اور ایک راستے سے جانا اوردوسرے راستے سے واپس آنا٭عید کی نماز سے پہلے صَدَقَۂ فِطر ادا کرنا ٭ خوشی ظاہرکرنا٭کثرت سے صَدَقہ دینا٭ عید گاہ کو اِطمینان و وَقار اور نیچی نگاہ کئے جانا٭ آپس میں مبارک باد دینا٭ بعدنماز عید مصافحہ ( یعنی ہاتھ ملانا) اور معانقہ (یعنی گلے ملنا) جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے بہتر ہے کہ اِس میں اِظہارِمسرت ہے، مگر اَمْرَد (یعنی خوبصورت لڑکے) سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ ہی٭ عِیدُ الْفِطْر کی نماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے تکبیر کہئے اورنمازِ عید اَضحٰی کیلئے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہئے۔ تکبیریہ ہے:
اَللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَرُ ؕ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ۔
ترجمہ :اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوراللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّہی کے لئے تمام خوبیاں ہیں ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ)
بقر عید کا ایک مستحب:
عیدِ اَضْحٰی ( یعنی بقر عید) تمام اَحکام میں عیدُ الْفِطْر ( یعنی میٹھی عید) کی طرح ہے۔ صِرف بعض باتوں میں فَرق ہے، مَثَلاً اِس میں ( یعنی بَقَر عید میں ) مُسْتَحَب یہ ہے کہ نَماز سے پہلے کچھ نہ کھائے چاہے قُربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھا لیا تو کراہت بھی نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ ص۱۵۲)
میں عید کی نماز بھی نہیں پڑھتا تھا:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہر سال رَمَضانُ المُبارَک میں اعتکاف کی سعادت اور ماہِ رَمَضانُ المُبارَک کی خوب بَرَکتیں لوٹئے پھرعید میں عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدنی قافلوں میں سنتوں بھرا سفر اختیار کیجئے ۔ ترغیب وتحریص کی خاطر ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ چنانچِہ بابُ المدینہ کراچی کے مین کورنگی روڈ کے قریب مقیم ایک اسلامی بھائی (عمر تقریباً25 برس) ایک گیراج (Garage) پر کام کرتے تھے۔ (اگر چہ فی نفسہٖ گیراج یعنی گاڑیوں کی مرمت کاکام غلط نہیں ، مگر آج کل گناہوں بھرے حالات ہیں ۔جن کو واسطہ پڑا ہوگا وہ جانتے ہوں گے کہ اکثر گیراج کا ماحول کس قدر گندا ہوتا ہے ، فی زمانہ گیراج میں کام کرنے والوں کیلئے حلال روزی کا حصول جُوئے شیر لانے کے مترادِف (مُ۔تَ۔را۔دِف) ہے۔) گیراج کے گندے ماحول کی نحوست کے سبب ان کو پنج وقتہ نماز کجا جمعہ بلکہ عیدین کی نمازوں کی بھی توفیق نہیں تھی، رات گئے تک T.V. پر مختلف فلمیں ڈرامے دیکھنے میں مشغول رہتے بلکہ ہر قسم کی چھوٹی بڑی برائیاں ان کے اندر موجود تھیں ۔ ان کی اصلاح کے اسباب یوں ہوئے کہ مکتبۃُ المدینہ سے جاری ہونے والے سنتوں بھرے بیان’’اللہ عَزَّوَجَلَّکی خفیہ تدبیر‘‘ کی کیسٹ سنی جس نے انہیں سرتا پا ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد رَمَضانُ المُبارَک میں اِعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی اور عاشقانِ رسول کے ساتھ تین دن کے مَدَنی قافلے میں سفر کا شرف ملا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو گئے، پانچوں وقت نمازوں کی پابندی ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّکاکروڑہا کروڑ احسان کہ وہ انسان جو عید کے بہانے بھی مسجِدکا رُخ نہیں کرتا تھا یہ بیان دیتے وقت تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی تنظیمی ترکیب کے مطابِق ایک مسجِد کی ذَیلی مُشاوَرَت کے نگران کی حیثیت سے بے نمازیوں کو نَمازی بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں ۔
بھائی گر چاہتے ہو نمازیں پڑھوں ،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
نیکیوں میں تمنا ہے آگے بڑھوں ،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ!ہمیں عِیْدِ سَعید کی خوشیاں سُنَّت کے مطابق منانے کی توفیق عطا فرما۔ اور ہمیں حج شریف اور دِیا رِ مدینہ و تاجدارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکی دید کی مَدَنی عید بار بارنصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
تری جب کہ دید ہوگی جبھی میری عید ہوگی
مرے خواب میں تو آنا مَدَنی مدینے والے (وسائل بخشش ص۴۲۴)
مجھ گنہگار پر بھی کرم کے چھینٹے پڑے:
کورنگی بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی ( عمر22 سال) بے نمازی، فلموں ڈراموں کے شوقین اور بگڑے ہوئے نوجوان تھے، برے ہم نشینوں کے ساتھ فیشن کی اندھیریوں میں بھٹک رہے تھے ، بری صحبت کی وجہ سے زندگی کے شب و روز گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ ہلالِ ماہِ رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۶ ھ ) آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوا، رحمتِ خدواندی عَزَّوَجَلَّ کی بارِشیں برسنے لگیں ، ان پر بھی کرم کے چھینٹے پڑے اور وہ کریمیہ قادِریہ مسجِد کورنگی نمبر ڈھائی، بابُ المدینہ کراچی میں ہونے والے اجتماعی اِعتکاف میں رَمَضانُ المُبارَک کے آخری عشرہ میں مُعتَکِف ہو گئے۔ ان کی خزاں رَسیدہ زِندگی کی شام میں صبح بہاراں کے مَدَنی پھول کھلنے لگے ، ان کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہ نمازی بن گئے ، داڑھی اور عمامہ شریف سجانے کی سعادت مل گئی ، تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے ایک ماہ کے مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر نصیب ہوا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تا دم تحریر ایک مسجِد کے ذَیلی قافِلہ ذمے دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں حصہ لینے کی سعادت حاصِل کر رہے ہیں ۔
مرضِ عصیاں سے چھٹکارا چاہوا گر، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
آؤ آؤ اِدھر آ بھی جاؤ اِدھر، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۳۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] ۔۔۔ صاحب نصاب، غنی" "فقیرحاجات اصلیہ وغیرہ اصلاحات کی تفصیلی معلومات فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہارشریعت حصہ پنجم میں ملاحظہ فرمایئے۔
Comments