اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فیضانِ لیلۃ القدر
دُ رُود شریف کی فضیلت:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جس نے مجھ پر دن میں ایک ہزار مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا ،وہ مرے گا نہیں جب تک جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے۔‘‘ (التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج ۲ ص ۳۲۸ حدیث ۲۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
لیلۃُ الْقدر کو’’ لیلۃُ الْقَدْر‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! لَیْلَۃُ الْقَدْر انتہائی بَرَکت والی رات ہے اِس کو لَیْلَۃُالْقَدْر اِس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پرشرافت وقدر کے باعث اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اَعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قَدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں ۔(تفسیر خازن ج ۴ص ۴۷۳)اور بھی مُتَعَدِّد شر افتیں اِس مبارَک رات کو حاصِل ہیں ۔
بخاری شریف میں ہے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’ جس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر میں ایمان اور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اُس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۴)
83 سال 4 ماہ کی عبادت سے زیادہ ثواب:
اِس مقدس رات کو ہرگز ہرگز غفلت میں نہیں گزارنا چاہئے،اِس رات عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ یعنی تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اِس ’’زیادہ ‘‘ کا علم اللہ عَزَّ وَجَلَّ جانے یا اُس کے بتائے سے اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جانیں کہ کتنا ہے۔اِس رات میں حضرتِ سَیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَاماور فرشتے نازِل ہوتے ہیں اور پھر عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں ۔ اِس مبارَک شب کا ہر ایک لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے اور یہ سلامتی صبحِ صادِق تک برقرار رہتی ہے۔یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو عطا کی گئی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲)لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ(۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵) (پ۳۰،سورۃُ القدر)
ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ بے شک ہم نے اسے شبِ قَدر میں اُتارا اورتم نے کیا جانا، کیا شبِ قدر؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اِس میں فرشتے اور جبریل اُترتے ہیں اپنے رب کے حُکم سے، ہرکام کیلئے ، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔
مفسرین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سُوْرَۃُ الْقَدْر کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’اِس رات میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قراٰنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازِل فرمایا اور پھر تقریباً 23 برس کی مُدَّت میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر اسے بتدرِیج نازِل کیا۔‘‘ ( تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۳۹۸)
نَبِیِّ مُعَظَّم، رَسُولِ مُحتَرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تَعَالٰی نے میری امت کو شب قدر عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں فرمائی۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۱۷۳حدیث۶۴۷)
ہزار مہینوں سے بہترایک رات:
حضرتِ سیِّدُنا امام مجاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کا ایک شخص ساری رات عبادت کرتا اور سارا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اور اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے ،تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارَکہ نازِل فرمائی : ’’ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ‘‘ (ترجَمۂ کنز الایمان :شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر) یعنی شب ِ قدر کا قیام اس عابد(یعنی عبادت گزار) کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ (تَفسیرِ طَبَری ج ۲۴ ص ۵۳۳)
ہماری عمریں تو بہت قلیل ہیں:
اور’’ تفسیرعزیزی‘‘ میں ہے:حضراتِ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے جب حضرتِ شمعون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی عبادات وجہاد کا تذکرہ سنا تو انہیں حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِپر بڑا رَشک آیا اور مصطَفٰے جانِ رَحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ بابرکت میں عرض کیا: ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ، اِس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں ، کھانے پکانے میں اور دیگر اُمورِ دُنیوی میں بھی کچھ وَقت صرف ہوجاتا ہے۔لہٰذا ہم تو حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی طرح عبادت کرہی نہیں سکتے ، یوں بنی اِسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘ اُمت کے غمخوار آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ سن کر غمگین ہوگئے۔ اُسی وَقت حضرتِ سَیِّدُنا جبرئیل اَمین عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام لے کر حاضر خدمت بابرکت ہوگئے اور تسلی دے دی گئی کہ پیارے حبیب(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) رَنجیدہ نہ ہوں ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو ہم نے ہر سال میں ایک ایسی رات عنایت فرمادی کہ اگر وہ اُس رات میں عبادت کریں گے تو (حضرتِ) شمعون (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔ (ماخوذ از تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۷)
با کرامت شمعون کی ایمان افروز حکایت:
انہی حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بارے میں ’’مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب‘‘ میں ایک نہایت اِیمان اَفروز حکایت بیان کی گئی ہے، اِس کا مضمون کچھ اس طرح ہے: بنی اسرائیل کے ایک بزرگ حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ہزار ماہ اِس طرح عبادت کی کہ رات کو قیام اور دِن کو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کفار کے ساتھ جہاد بھی کرتے ۔ وہ اِس قدر طاقتور تھے کہ لوہے کی وَزنی اور مضبوط زنجیریں ہاتھوں سے توڑ ڈالتے تھے۔ کفارِ ناہنجار نے جب دیکھا کہ حضرتِ شمعو نرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر کوئی بھی حربہ کار گر نہیں ہوتا توباہم مشورہ کرنے کے بعد مال و دولت کا لالچ دے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی زَوجہ کو اِس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ کسی رات نیند کی حالت میں پائے توانہیں مضبوط رَسیوں سے باندھ کر اِن کے حوالے کردے۔ بے وَفا بیوی نے ایساہی کیا ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبیدار ہوئے اور اپنے آپ کو رَسیوں سے بندھا ہوا پایا تو فوراً اپنے اَعضا کوحرکت دی، دیکھتے ہی دیکھتے رسیاں ٹوٹ گئیں اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِآزاد ہوگئے۔ پھر اپنی بیوی سے اِستفسار کیا: ’’مجھے کِس نے باندھ دیا تھا؟‘‘ بے وفا بیوی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے تو آپ کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لئے ایساکیا تھا۔ بات رَفع دَفع ہوگئی۔
بے وفا بیوی موقع کی تاک میں رہی ۔ ایک بار پھرجب نیند کا غلبہ ہوا تو اُس ظالمہ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو لوہے کی زنجیروں میں اچھی طرح جکڑ دیا۔ جوں ہی آنکھ کھلی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ایک ہی جھٹکے میں زنجیر کی ایک ایک کڑی الگ کردی اورآزاد ہوگئے ۔ بیوی یہ دیکھ کر سٹپٹا گئی مگر پھر مکاری سے کام لیتے ہوئے وُہی بات دُہرادی کہ میں توآپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو آزما رہی تھی۔دَورانِ گفتگو( حضرتِ ) شمعون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)نے اپنی بیوی کے آگے اپنا راز اِفشا(یعنی ظاہر) کر تے ہوئے فرمایا: مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا کرم ہے، اُس نے مجھے اپنی وِلایت کا شرف عنایت فرمایا ہے، مجھ پر دُنیا کی کوئی چیز اَثر نہیں کرسکتی مگر ، ’’میرے سر کے بال۔ ‘‘ چالاک عورت ساری بات سمجھ گئی۔
آہ! اُسے دُنیا کی مَحَبَّت نے اندھا کردیا تھا۔ آخر ایک بار موقعہ پاکر اُس نے آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو آپ(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ہی کے اُن آٹھ گیسوؤں (یعنی زلفوں ) سے باندھ دیا جن کی درازی زَمین تک تھی۔ ( یہ اگلی اُمت کے بزرگ تھے، ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سنّتِ گیسو آدھے کان ، پورے کان اور مبارک کندھوں تک ہے،کندھوں سے نیچے تک مرد کو بال بڑھانا حرام ہے) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آنکھ کھلنے پر زور لگایا مگرآزاد نہ ہو سکے ۔دُنیا کی دولت کے نشے میں بَدمست بے وفا عورت نے اپنے نیک و پارسا شوہر کو دشمنوں کے حوالے کردیا۔
کُفَّارِ بَد اَطوار نے حضرت شمعون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو ایک ستون سے باندھ دیا اور اِنتہائی بے دردی کے ساتھ اُن کے ہونٹ اور کان کاٹ ڈالے۔ تب اس نیک بندے نے اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں دعا کی کہ اسے ان بندھنوں کو توڑنے کی قوت بخشے اور ان کافروں پر یہ ستون مع چھت گرادے اور اسے ان سے نجات دے دے چنانچہ اللہ تَعَالٰی نے ان کو قوت بخشی وہ ہلے تو ان کے تمام بندھن ٹوٹ گئے، تب انہوں نے ستون کو ہلایا جس کی وجہ سے چھت کافروں پر آگری اور وہ سب ہلاک ہو گئے اور اس نیک بندے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نجات بخشی۔ (ماخوذ ازمُکاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۶ وغیرہ)
آہ ! ہمیں قدر کہاں !:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! خدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ اپنے محبوبِ ذیشان، رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت پر کس قدر مہربان ہے اور اُس نے ہم پر کیسا عظیم الشان اِحسان فرمایا کہ اگر شب قدر میں عبادت کرلیں تو ایک ہزار ماہ سے بھی زیادہ کی عبادت کا ثواب پالیں ۔ مگر آہ! ہمیں شبِ قدر کی قد ر کہاں !ایک صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی تو تھے کہ جن کی حسرت پر ہم سب کو اِتنا بڑا اِنعام بغیر کسی خواہش کے مل گیا! بے شک اُنہوں نے اِس کی قدربھی کی مگر افسوس! ہم ناقدر ے ہی رہے!آہ! ہر سال ملنے والے اِس عظیم الشان اِنعام کو ہم غفلت کی نذر کردیتے ہیں ۔
مَدَنی انعامات کے رسالے کی برکت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شبِ قدر کی دل میں عظمت بڑھانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمسلمانوں کو نیک نمازی بنانے کے تعلُّق سے اسلامی بھائیوں کیلئے 72،اسلامی بہنوں کیلئے 63اور طلبۂ علمِ دین کیلئے 92 ،دینی طالبات کیلئے 83، مَدَنی منوں اور منیوں کیلئے40، خصوصی ( یعنی گونگے بہرے اور نابینا اسلامی بھائیوں )کیلئے25اور قیدیوں کیلئے 52 مَدَنی اِنعامات بصورتِ سوالات مرتب کئے گئے ہیں ۔ فکرمدینہ ( یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ ) کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کر کے دعوتِ اسلامی کے مقامی ذمے دار کو ہر مَدَنی ماہ یعنی اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کوجمع کروانا ہوتا ہے۔ مَدَنی انعامات نے نہ جانے کتنے ہی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپاکردیا ہے! اِس کی ایک جھلک ملا حظہ ہو: نیو کراچی کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح بیان ہے: علاقے کی مسجِد کے امام صاحب جو کہ دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہیں ،انہوں نے اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے میرے بڑے بھائی جان کو مَدَنی انعامات کا ایک رسالہ تحفے میں دیا۔ وہ گھر لے آئے اور پڑھا تو حیران رَہ گئے کہ اِس مختصر سے رسالے میں ایک مسلمان کو اسلامی زندگی گزارنے کا اتنا زبردست فارمولا دے دیا گیا ہے! مَدَنی انعامات کارسالہ ملنے کی برکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اُن کو نماز کا جذبہ ملا اورنمازِ با جماعت کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہو گئے اور اب پانچ وَقت کے نمازی بن چکے ہیں ، داڑھی مبارَک بھی سجا لی اور مَدَنی انعامات کا رسالہ بھی پرکرتے ہیں ۔
مَدَنی انعامات کے عامِل پہ ہر دم ہر گھڑی یاالٰہی!خوب برسا رحمتوں کی تو جھڑی
عاملین مَدَنی انعامات کے لیے بشارتِ عظمٰی:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کرنے والے کس قدر خوش قسمت ہوتے ہیں اِس کا اندازہ اس مَدَنی بہار سے لگایئے، چنانچہ زم زم نگر (حیدَرآباد، بابُ الاسلام سندھ پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح حلفیہ بیان ہے کہ ماہِ رجبُ المرجَّب ۱۴۲۶ ھ کی ایک شب مجھے خواب میں مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی عظیم سعادت ملی۔ لبہائے مبارکہ کو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے ، الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: جو اس ماہ روزانہ پابندی سے مَدَنی انعامات سے مُتَعَلِّق فکر مدینہ کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کی مغفرت فرما دے گا۔
مَدنی انعامات کی بھی مرحبا کیا بات ہے قربِ حق کے طالبوں کے واسطے سوغات ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!یہ رات ہر طرح سے خیریت وسلامتی کی ضامِن ہے۔یہ رات اَوَّل تا آخِر رَحمت ہی رَحمت ہے۔مُفَسِّرِینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیفرماتے ہیں : ’’یہ رات سانپ بچھو ، آفات وبَلیَّات اور شیاطین سے بھی محفوظ ہے، اِس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔‘‘
تمام بھلائیوں سے محروم کون ؟:
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایا تو سلطانِ دوجہان ،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)
سبز جھنڈا:
ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا حصہ ہے: ’’جب شب قدر آتی ہے تو حکمِ الٰہی سے (حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پرنزول فرماتے ہیں (اور ایک روایت کے مطابق:’’ اِن فرشتوں کی تعداد زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘)([1]) اور وہ سبز جھنڈا کعبۂ مُعَظّمہ پر لہرادیتےہیں۔ (حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کے سو بازُو ہیں ، جن میں سے دوبازُو صرف اِسی رات کھولتے ہیں ، وہ بازُو مشرق ومغرب میں پھیل جاتے ہیں ،پھر( حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو حُکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام ،نماز یا ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہے اُس سے سلام ومصافحہ کرونیز اُن کی دُعاؤں پر آمین بھی کہو ۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے ۔ صبح ہونے پر(حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں : اے جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُ مَّتِ محمدیہ(عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کی حاجتوں کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟( حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرماتے ہیں : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِن لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔‘‘ صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کیـ:’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہ چار قسم کے لوگ کون ہیں ؟‘‘ ارشاد فرمایا: {۱} ایک تو عادی شرابی {۲} دُوسرے والدین کے نافرمان {۳}تیسرے قطع رِحمی کرنے والے (یعنی رشتے داروں سے تَعلُّقات توڑنے والے) اور {۴} چوتھے وہ لوگ جو آپس میں عداوت رکھتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرنے والے۔‘‘ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۳۶حدیث۳۶۹۵)
لڑائی کا وبال:
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے کہ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے تاکہ ہم کو شب قدر کے بارے میں بتائیں (کہ کس رات میں ہے) دومسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اِس لئے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں شخص جھگڑرہے تھے، اِس لئے اِس کا تعین اُٹھالیا گیا،اورممکن ہے کہ اِسی میں تمہاری بہتری ہو، اب اِس کو (آخری عشرے کی) نویں ، ساتویں اور پانچویں را توں میں ڈھونڈو۔‘‘ ( بُخاری ج ۱ ص ۶۶۳ حدیث۲۰۲۳)
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراۃ جلد 3 صفحہ 210پراس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی میرے علم سے اس کا تقرر دور کردیا گیا اور مجھے بھلا دی گئی ، یہ مطلب نہیں کہ خود شب قدر
ہی ختم کردی اب وہ ہوا ہی نہ کرے گی۔ معلوم ہوا کہ دنیاوی جھگڑے منحوس ہیں ان کا وبال بہت ہی زیادہ ہے ان کی وجہ سے اللہ کی آتی ہوئی رحمتیں رُک جاتی ہیں ۔
ہم تو شریف کے ساتھ شریف اور۔۔۔:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا کرنا رَحمت سے دُوری کا سَبَب بن جاتا ہے۔ مگر آہ ! اب کون کس کو سمجھائے! آج تو بڑے فخرسے کہا جا رہا ہے کہ ’’میاں اِس دُنیا میں شریف رہ کر تَو گزارہ ہی نہیں ، ہم تو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمعاش کے ساتھ بد معاش ہیں ! ‘‘ صرف اس قول ہی پر اِکتفا نہیں ، اب تو معمولی سی بات پر پہلے زَبان درازی ،پھر دست اندازی ،اس کے بعد چاقو بازی بلکہ گولیاں تک چل جاتی ہیں ۔اَفسوس ! آج کل بعض مسلمان کبھی پٹھان بن کر کبھی پنجابی کہلا کر ،کبھی مہاجر ہوکر ،کبھی سندھی اور بلوچ قومیَّت کا نعرہ لگا کر ایک دُوسرے کا گلاکاٹ رہے ہیں ، ایک دوسرے کی اَملاک واَموال کو آگ لگا رہے ہیں ۔ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف نسلی اور لسانی فرق کی بنا پر محاذ آرائی ہورہی ہے۔ مسلمانو! آپ تو ایک دوسرے کے محافظ تھے آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان تویہ ہے کہ: ’’مؤمنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اُس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔‘‘ ( بُخاری ج۴ص۱۰۳حدیث۶۰۱۱)
ایک شاعر نے کتنے پیارے انداز میں سمجھایاہے:
مبتلائے دَرد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہمیں آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرنی چاہئے۔مسلمان ایک دوسرے کو مارنے ، کاٹنے اور لُوٹنے والا نہیں ہوتا۔
مسلمان، مومن اور مہاجر کی تعریف:
حضرتسَیِّدُنا فضالہ بن عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حَجَّۃُ الْوَداعکے موقع پر ارشاد فرمایا:’’کیا تمہیں مؤمن کے بارے میں خبر نہ دوں ؟‘‘پھر ارشاد فرمایا :’’مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اوراپنے اَموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زَبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مجاہد وہ ہے جس نے اطاعت ِخداوندی عَزَّوَجَلَّ کے معاملے میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے خطا اور گناہوں سے علٰیحدگی اختیار کی۔‘‘ (اَلْمُستَدرَک ج۱ص ۱۵۸حدیث۲۴) اور ارشاد فرمایا: مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دو سرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اِس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف پہنچے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۷ ص۱۷۷) ایک مقام پر ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ ( اَ بو داوٗد ج۴ ص۳۹۱حدیث۵۰۰۴)
طریقِ مصطَفٰے کو چھوڑنا ہے وجہِ بربادی
اِسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
ناقابل برداشت خارِش:
حضرتِ سَیِّدُنا مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دوزخیوں کو ایسی خارِش میں مبتلا کردیا جائے گاکہ کھجاتے کھجاتے اُن کی کھال اُدھڑ جائے گی یہاں تک کہ اُن میں سے کسی کی ہڈیاں ظاہر ہوجائیں گی۔پھر ندا سُنائی دے گی ، اے فلاں : کیا اس سے تکلیف ہورہی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں ۔ تب انہیں بتایا جائے گا: ’’ دُنیا میں جو تم مسلمانوں کو ستایا کرتے تھے یہ اُس کی سزا ہے۔‘‘(اِتحافُ السّادَۃ ج۷ص۱۷۵)
تکلیف دور کرنے کا ثواب:
حضور اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظَّم ہے: ’’میں نے ایک شخص کو جنت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جدھر چاہتا ہے نکل جاتا ہے کیوں کہ اُس نے اِس دنیا میں ایک ایسے دَرَخت کو راستے سے کاٹ دیا تھا جو کہ لوگوں کو
تکلیف دیتا تھا۔‘‘ ( مُسلم ص۱۴۱۰حدیث۲۶۱۸)
لڑنا ہے تو نفس کے ساتھ لڑو!:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اِن احادیثِ مُبارَکہ سے دَرْس حاصِل کیجئے اور آپَس میں لڑائی جھگڑا اور لُوٹ مارسے پرہیز کیجئے۔اگرلڑنا ہی ہے تو مَردُود شیطان سے لڑیئے، بلکہ ضرور لڑیئے،نَفْسِ اَمّارہ سے لڑائی کیجئے،بَوَقتِ جِہاد دین کے دشمنوں سے قِتال کیجئے، مگر آپَس میں بھائی بھائی بن کر رہئے۔
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا رہے تھے!:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں کسی قسم کا لسانی اور قومی اختلاف نہیں ، ہر زَبان بولنے والا اور ہربرادری سے تعلُّق رکھنے والا تاجدارِ حرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامنِ کرم ہی میں پناہ گزیں ہے۔ آپ بھی ہر دم دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہئے اور عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارنے کیلئے اپنے آپ کو مَدَنی اِنعامات کے سانچے میں ڈھال لیجئے ۔ ترغیب وتحریص کیلئے ایک خوشگوار و خوشبودار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے، تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں مَدَنی قافلہ کورس کرنے کیلئے تشریف لائے ہوئے راولپنڈی کے ایک مبلغ نے جو کچھ حلفیہ لکھ کر دیا اس کا خلاصہ ہے کہ: میں عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں سورہا تھا، سر کی آنکھیں تو کیا بند ہوئیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدل کی آنکھیں کھل گئیں ، عالَمِ خواب میں دیکھا کہ سرکارِ رسالت مَآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بلند چبوترے پر جلوہ افروز ہیں ،قریب ہی مَدَنی انعامات کے کارڈز کی بوریاں رکھی ہیں ۔ سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مَدَنی انعامات کے ایک ایک کارڈ کو مسکراتے ہوئے بغورملاحظہ فرمارہے ہیں ۔پھر میری آنکھ کھل گئی۔
مَدَنی انعامات سے عطاّر ہم کو پیار ہے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّدو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جادوگر کا جادو ناکام:
حضرتِ سَیِّدُنا اسمٰعیل حَقِّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینقل فرماتے ہیں : یہ رات آفات سے سلامتی کی ہے کہ اس میں رَحمت اور خیر (یعنی بھلائی)ہی زمین پر اترتی ہے۔ اور نہ اِس میں شیطان برائی کروانے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ جادو گر کا جادو اِس میں چلتاہے۔ (رُوْحُ الْبَیان ج۱۰ص۴۸۵ مُلَخَّصاً )
علاماتِ شب قدر:
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ،تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے،گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے،اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔‘‘ (اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے)
(مُسند اِمام احمد ج۸ص۴۰۲، ۴۱۴حدیث۲۲۷۷۶،۲۲۸۲۹)
شب قدر کی پوشیدگی کی حکمت:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یا آخری رات میں سے چاہے وہ 30 ویں شب ہو کوئی ایک رات شب قدر ہے ۔اِس رات کو مخفی(یعنی پویشدہ) رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان اِس رات کی جستجو (یعنی تلاش ) میں ہر رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں گزارنے کی کوشِش کریں کہ نہ جانے کون سی رات، شب قدر ہو۔
سمندر کا پانی میٹھا لگا(حکایت):
حضرتِ سَیِّدُنا عثمان ابن ابی الْعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے غلام نے اُن سے عرض کی: ’’ اے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)! مجھے کشتی بانی کرتے ایک عرصہ گزرا، میں نے سمندر کے پانی میں ایک ایسی عجیب بات محسوس کی۔‘‘ پوچھا: ’’وہ عجیب بات کیا ہے ؟ ‘‘ عرض کی: ’’اے میرے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)!ہر سال ایک ایسی رات بھی آتی ہے کہ جس میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے غلام سے فرمایا: ’’اِس بار خیال رکھنا جیسے ہی رات میں پانی میٹھا ہو جائے مجھے مطلع کرنا۔‘‘ جب رَمضان کی ستائیسویں رات آئی تو غلام نے آقا سے عرض کی کہ’’ آقا! آج سمندر کا پانی میٹھا ہوچُکا ہے۔‘‘
(تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۸، تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ہمیں علامات کیوں نظر نہیں آتیں ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! شب قدر کی مُتَعَدِّدعلامات کا ذِکر گزرا ۔ ہمارے ذِہن میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ ہماری عمر کے کافی سال گزرے ہر سال شب قدر آتی اور تشریف لے جاتی ہے مگر ہمیں تو اب تک اِس کی علامات نظر نہیں آئیں ؟اِ س کے جواب میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : اِن باتوں کا تَعَلُّق کشف و کرامت سے ہے، انہیں عام آدَمی نہیں دیکھ سکتا۔صِرف وُہی دیکھ سکتا ہے جس کو بصیرت (یعنی قلبی نظر)کی نعمت حاصل ہو۔ہر وَقت معصیت کی نجاست میں لت پت رہنے والا گنہگار اِنسان اِن نظاروں کوکیسے دیکھ سکتا ہے! ؎
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دِیدۂِ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
طاق راتوں میں ڈھونڈو:
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے: نبیوں کے سرتاج ، صاحب معراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’شب قدر، رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اِکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اوراُنتیسویں راتوں ) میں تلاش کرو۔‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۶۱حدیث۲۰۱۷)
آخری سا ت راتوں میں تلاش کرو:
حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا رِوایت کرتے ہیں : بحرو بر کے بادشاہ ، دو عالم کے شہنشاہ ، اُمت کے خیر خواہ، آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے مہر و ماہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعض صحابۂ کرام رِضوانُ اللہ تعالٰی عَلَیْہِم اجْمَعِیْن کو خواب میں آخری سات راتوں میں شبِ قدر دِکھائی گئی۔ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں مُتَّفِق ہوگئے ہیں ۔ اِس لئے اِس کا تلاش کرنے والا اِسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔‘‘( بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۵)
لیلۃُ الْقدر پوشیدہ کیوں ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سُنَّتِ کریمہ ہے کہ اُس نے بعض اَہم ترین مُعاملات کو اپنی مَشِیَّت سے بندوں پر پوشیدہ رکھا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضاکو نیکیوں میں ،اپنی ناراضیکو گناہوں میں اور اپنے اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکواپنے بندوں میں پوشیدہ رکھا ہے ۔ ‘‘(اَخلاقُ الصالحین ص ۵۶) اِس کا خلاصہ ہے کہ بندہ چھوٹی سمجھ کر کوئی نیکی نہ چھوڑے۔کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کس نیکی پر راضی ہو گا، ہوسکتا ہے بظاہر چھوٹی نظر آنے والی نیکی ہی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہو جائے ۔ مَثَلاً قیامت کے روز ایک گنہگار شخص صرف اِس نیکی کے عوض بخش دیا جائے گا کہ اُس نے ایک پیاسے کتے کو دُنیا میں پانی پلادیا تھا۔اِسی طرح اپنی ناراضی کو گناہوں میں پوشیدہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو چھوٹا تَصَوُّر کرکے کر نہ بیٹھے ،بس ہر گناہ سے بچتا رہے ۔کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیکس گناہ سے ناراض ہوجائے گا۔اِسی طرح اَولیارَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکو بندوں میں اِس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ اِنسان ہر نیک حقیقی پابند شرع مسلمان کی رِعایَت و تعظیم بجالائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ’’وہ ‘‘ وَلیُّ اللہ ہو۔ جب ہم نیک لوگوں کی دل سے تعظیم کیا کریں گے،بد گمانی سے بچتے رہیں گے اور ہر مسلمان کو اپنے سے اچھا تصور کرنے لگیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی صحیح ہوجائے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّہماری عاقبت بھی سنور جائے گی۔
حکمتوں کے مَدَنی پھول:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’تفسیرکبیر‘‘میں فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ قدر کو چند وجوہ کی بنا پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اوّل یہ کہ جس طرح دیگر اشیا کو پوشیدہ رکھا،مَثَلاً اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رَغبت حاصِل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ،قبولیت دعا کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھا کہ سب دعاؤں میں مُبالغہ کریں اور اسمِ اعظم کو اَسما میں پوشیدہ رکھا کہ سب اسما کی تعظیم کریں ۔اور صلوۃِ وسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا کہ تمام نمازوں پر محافظت(یعنی ہمیشگی اختیار) کریں اور قبولِ تو بہ کوپوشیدہ رکھاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے، اور موت کا وَقت پوشیدہ رکھا کہ مُکلَّف (بندہ) خوف کھاتا رہے۔ اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھا کہ َرمَضان الْمُبارَک کی تمام راتوں کی تعظیم کرے۔ دوسرے یہ کہ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’اگر میں شب قدر کو مُعَیَّن(Fix) کر (کے تجھ پر ظاہر فرما)دیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جُرْأَت بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اِس رات میں معصیت کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اِس رات کو جاننے کے باوُجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے بڑھ کر سخت ہوتا، پس اِس وجہ سے میں نے اِسے پوشیدہ رکھا ۔ تیسرے یہ کہ میں نے اِس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ اِس کی طلب میں محنت کرے اور اِس محنت کا ثواب کمائے۔ چوتھے یہ کہ جب بندے کو شب قدر کا تعین حاصِل نہ ہوگا تو رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر رات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا اِس امید پر کہ ہوسکتا ہے یہی رات شبِ قدر ہو۔ (تفسِیرِ کبیر ج۱۱ص۲۹ مُلَخَّصاً )
سال میں کوئی سی بھی رات شب قدر ہو سکتی ہے:
شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا کافی اِختلاف پایا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگوں رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکے نزدیک شَبِ قدر پورے سال میں پھرتی رہتی ہے، مَثَلاً فَقِیْہُ الْاُمَّۃحضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ ابنِ مَسْعُودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے: شبِ قدر وہی شخص پاسکتا ہے جو پورے سال کی راتوں پر توجُّہ رکھے ۔ (تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰) اِس قول کی تائِید کرتے ہوئے امامُ الْعارِفین سَیِّدُنا شیخ مُحی الدّین ابنِ عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے شَعْبانُ المُعَظَّمکی پندرہویں شب (یعنی شبِ بَرَاء ت ) اور ایک بار شَعْبانُ المُعَظَّم ہی کی اُنیسویں شب میں شبِ قَدرپائی ہے۔ نیز رَمَضانُ الْمُبارَک کی تیرہویں شب اور اٹھارہویں شب میں بھی دیکھی،اور مختلف سالوں میں رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اِسے پایا ہے۔مزید فرماتے ہیں : اگر چہ زیادہ تر شبِ قدر رَمضان شریف میں ہی پائی جاتی ہے تاہم میرا تجربہ تو یہی ہے کہ یہ پورا سال گھومتی رہتی ہے۔ یعنی ہر سال کیلئے اِس کی کوئی ایک ہی رات مخصوص نہیں ہے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۴ص۳۹۲ ملخّصاً)
رحمت کونین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مع شیخین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جلوہ گری:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں رَمَضانُ الْمُبارَککے اعتکاف کی خوب بہاریں ہوتی ہیں ، دنیا کے مختلف مقامات پر اسلامی بھائی مساجد میں اور اسلامی بہنیں ’’مسجد بیت‘‘ میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے اور خوب جلوے سمیٹتے ہیں ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے : تحصیل لیاقت پور ، ضلع رحیم یار خان( پنجاب ، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا لبِّ لباب ہے: میں فلموں کاایسا رسیا تھا کہ ہمارے گاؤں کی سی ڈیز کی دکان کی تقریبا ً آدھی سی ڈیزدیکھ چکا تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمجھے طلبانی گاؤ ں کی مدنی مسجد میں آخری عشرۂ رَمَضانُ الْمُبارَک (۱۴۲۲ ھ ، 2001ء) کے اعتکاف کی سعادت نصیب ہو گئی۔ دعوتِ اسلامی کے عاشقانِ رسول کی صحبت کی برکتوں کے کیا کہنے! 27 رَمَضانُ الْمُبارَک کا ناقابلِ فراموش ایمان افروز واقعہ تحدیث نعمت کیلئے عرض کرتا ہوں : شب بھر بیدار رہ کر میں نے خوب رو رو کر سرکارِ نامدارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے دیدار کی بھیک مانگی ۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّصبحِ دم مجھ پر بابِ کرم کھل گیا، میں نے عالمِ غنودَگی میں اپنے آپ کو کسی مسجِد کے اندر پایا، اتنے میں کسی نے اعلان کیا:’’ سرکار مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف لائیں گے اور نماز کی امامت فرمائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں رحمتِ کونین، سلطانِ دارین ، نانائے حسنین، ہم دُکھیادلوں کے چین، مع شیخین کریمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن جلوہ نما ہو گئے اور میری آنکھ کھل گئی ۔ صرف ایک جھلک نظر آئی اور وہ حسین جلوہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، اس پر دل ایک دم بھر آیا اورآنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا یہاں تک کہ روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں اے کاش! ؎
اتنی مدت تک ہو دیدِ مصحف عارِض نصیب
حفظ کر لوں ناظرہ پڑھ پڑھ کے قراٰنِ جمال (ذوقِ نعت)
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاِس کے بعد میرے دل میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کی مَحَبَّت اور بڑھ گئی بلکہ میں دعوتِ اسلامی ہی کا ہو کر رہ گیا ۔ گھر سے ترکیب بنا کر میں نے بابُ المدینہ کراچی کا رُخ کیا اور درسِ نِظامی کرنے کیلئے جامِعۃُ المدینہ میں داخلہ لے لیا۔ یہ بیان دیتے وقت درجہ اولیٰ میں علمِ دین حاصِل کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی طور پر ایک ذیلی حلقے کے قافِلہ ذمہ دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کی کوشِش کر رہا ہوں ۔
جلوۂ یار کی آرزو ہے اگر، مدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
میٹھے آقا کریں گے کرم کی نظر، مدنی ماحول میں کر لو تُم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۳۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امام اعظم، امام شافعی اور صاحِبین کے اقوال:
سَیِّدُنا اِمامِ اعظم اَبو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اِس بارے میں دو قول منقول ہیں : {۱}لیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں {۲} سَیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک مشہور قول یہ ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْر پورا سال گھومتی رہتی ہے، کبھی ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ہوتی ہے اور کبھی دوسرے مہینوں میں ۔ یہی قول سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عباس، سَیِّدُنا عبد اللہ ابن مسعود اور سَیِّدُناعکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن سے بھی منقول ہے ۔ (عُمدۃُ القاری ج۸ ص ۲۵۳ تحتَ الحدیث ۲۰۱۵)
سَیِّدُنا امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نزدیک ’’شبِ قدر‘‘ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں ہے اور اس کی رات مُعَیَّن (Fix) ہے ، ا س میں قیامت تک تبدیلی نہیں ہوگی۔(اَیضاً)
سَیِّدُنا امام ابویوسف اور سَیِّدُنا امام محمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیکلیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں ۔اور ان کاایک قول یہ ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخِری پندرہ راتوں میں لَیْلَۃُ الْقَدْر ہوتی ہے۔ (اَیضاً)
شب قدر بدلتی رہتی ہے:
سَیِّدُنا امامِ مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک شبِ قدررَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔مگر کوئی ایک رات مخصوص نہیں ،ہر سال اِن طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے،یعنی کبھی اِکیسویں شب لَیْلَۃُ القَدْرہوجاتی ہے توکبھی تئیسویں ،کبھی پچیسویں تو کبھی ستائیسویں اور کبھی کبھی اُنتیسویں شب بھی شبِ قدر ہوجایا کرتی ہے۔ (عمدۃُ القاری ج۱ص۳۳۵)
شیخ ابو الحسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی اورشب قدر:
سلسلۂ قادریہ شاذِلیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابُو الْحَسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی (متوفّٰی656ھ)فرماتے ہیں : ’’جب کبھی اتوار یا بُدھ کو پہلا روزہ ہوا تَو اُنتیسویں شب ، اگرپیر کا پہلا روزہ ہو ا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یاجمعہ کو ہوا تو ستائیسویں شب اگر پہلا روزہ جمعرات کو ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلاروزہ ہفتے کو ہوا تو میں نے تئیسویں شب میں شَبِ قَدْر کوپایا۔ ‘‘ (تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۴۰۰)
ستائیسویں رات شب قدر:
اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثینرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔(مسلم ص۳۸۳حدیث۷۶۲)
حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :{۱} ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {۲} اِس سورئہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ہے جس کا مرکز لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے۔ گویا اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً)
گویا شب قدر حاصل کر لی:
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:جس نے ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ،سُبحٰنَ اللہ ِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم ‘‘([2])تین مرتبہ پڑھا تو اُس نے گویا شب قدر حاصل کر لی ۔(ابنِ عَساکِر ج۶۵ ص۲۷۶)ہو سکے تو ہررات تین بار یہ دُعا پڑھ لینی چاہئے۔
رِضائے الٰہیعَزَّ وَجَلَّ کے خواہشمندو! ہوسکے تو سارا ہی سال ہر رات اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک عمل کرلینا چاہیے کہ نہ جانے کب شب قدر ہوجائے ۔ ہر رات میں دو فرض نَمازیں آتی ہیں ، دیگر نَمازوں کے ساتھ ساتھ مغرب و عِشا کی نَمازوں کی جماعت کابھی خوب اِہتمام ہونا چاہئے کہ اگر شب قدر میں ان دونوں کی جماعت نصیب ہوگئی تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّبیڑا ہی پارہے ، بلکہ اسی طرح پانچوں نمازوں کے ساتھ ساتھ روزانہ عشا و فجر کی جماعت کی بھی خصو صِیَّت کے ساتھ عادت ڈال لیجئے۔ دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملاحظہ ہوں : {۱}جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے گویا پوری رات قیام کیا۔ (مُسلم ص ۳۲۹ حدیث۶۵۶) {۲} ’’جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر سے اپنا حصہ حاصل کرلیا۔‘‘ (مُعجَم کبیر ج۸ص۱۷۹حدیث۷۷۴۵)
اللہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کے متلاشیو! اگر تمام سال یہی عادتِ جماعت رہی تو شب قدر میں بھی اِن دونوں نَمازوں کی جماعتاِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّنصیب ہوجائے گی اور رات بھر سونے کے باوُجود اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّروزانہ کی طرح شب قدر میں بھی گویا ساری رات کی عبادت کرنے والے قرار پائیں گے۔
شب قدر کی دُعا:
اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی ج۵ص۳۰۶حدیث۳۵۲۴)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! کاش !ہم روزانہ رات یہ دُعا کم ازکم ایک بار ہی پڑھ لیا کریں کہ کبھی تو شَب قدر نصیب ہو جائے گی۔ اور ستائیسویں شب تو یہ دُعا بارہا پڑھنی چاہئے۔
شب قدر کے نوافل:
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’تفسیرِ رُوْحُ الْبَیان‘‘ میں یہ رِوایت نقل کرتے ہیں : جو شبِ قدر میں اِخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گااُس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجائیں گے۔ (رُوْحُ البَیان ج۱۰ص۴۸۰)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب رَمَضانُ المُبارککے آخری دس دِن آتے تو عبادت پر کمر باند ھ لیتے، ان میں راتیں جاگا کرتے اور اپنے اہل کو جگایا کرتے۔ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۵۷حدیث۱۷۶۸)
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہبزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن
اس عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شبِ قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو ہررات دس آیات اِس نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا یہ رات منبعِ برکات ہے ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایاتوحضورِ انور ،شافِعِ مَحشر ،مدینے کے تاجور ،باِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)
اے ہمارے پیارے پیار ےاللہ عَزَّوَجَلَّ!اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم گناہ گاروں کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتوں سے مالا مال کر اور زیادہ سے زیادہ اپنی عبادَت کی توفیق مرحمت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
لَیْلَۃُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْرِ حق
مانگ کی استِقامت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشِش ص۲۹۹)
[1] ۔۔۔مسند احمد ،ج۳،ص۶۰۶، حدیث ۱۰۷۳۹۔
[2] ۔۔۔ترجمہ :یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی عِبادت کے لائِق نہیں جو حِلم وکرم والا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے جو ساتوں آسمانوں اور بڑےعرش کامالک ہے۔
Comments