مرد آگے کیوں؟

معاف کرنا حلیمہ مگر تم جیسی کمزور عورتوں کی وجہ سے ہی مردوں کو اتنی شہہ ملی ہوئی ہے ۔ مس فَروا نے ناگواری سے حلیمہ کو گھورتے ہوئے کہا۔

 کیامطلب ہے آپ کا مس فروا؟ حلیمہ جو کہ شوہر کے انتظار میں بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی فروا کے طنزیہ جملے پر چونک کر پوچھنے لگی۔

مطلب صاف ہے حلیمہ! آج معاشرے میں مَردوں کو ہی ہر جگہ آگے کیاجاتا ہے عورت کی تو کوئی  قدر ہی نہیں ہرمعاملے میں ہمیں پیچھے کیا جاتا ہے۔

آخر آپ کو شوہر کا انتظارکرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود چلی جائیں۔ ایک بلاک پیچھے تو ہے آپ کا گھر۔ یہ ہماری خواتین پتا نہیں کیوں خود پر مَردوں کواتنا مسلط کرلیتی ہیں؟مجھے دیکھو آزادی سے ہرجگہ آتی جاتی ہوں ، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں ، کسی مرد کی محتاج نہیں ہوں ، فروا جوکہ دوسال پہلے اپنے شوہرسےخلع لےچکی تھی ،  گردن اکڑا کر تفخر آمیز لہجے میں کہتی چلی گئی۔

حلیمہ جوکہ میکے میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے آئی ہوئی تھی اور اب واپسی کے لئے شوہر کی منتظر تھی ، مردوں کےخلاف ایسے بےباک اظہار خیال پر ششدر  رہ گئی۔

آس پاس کی خواتین بھی ان کی طرف متوجہ ہوچکی تھیں ، فروا کی ہی ہم خیال نصرت بھی میدان میں اترکر کہنے لگی : اور نہیں تو کیا! فروا بالکل درست کہہ رہی ہے مَردوں کو ہر چیز میں آگے رکھ کر عورتوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتاہےہمارے  یہاں ، حالانکہ ہم مَردوں کی اتنی بھی محتاج نہیں ہیں۔

معاف کیجئے گا مگر مَردوں کو آگے ہم نےنہیں شریعت نے کیاہے اور  مَردوں کی محتاج تو ہم مرنے کےبعد بھی رہتی ہیں ڈیئر! آخرہمارے جنازے سپردِخاک کرنے کو بھی تو مرد ہی آگے ہوتے ہیں ۔

اچانک فروا کو بریک لگ گئی تھی اور وہ مدد طلب نظروں سے نصرت کو دیکھنے لگی تھی مگر اس سے پہلے ہی حلیمہ نے مزید کہنا شروع کیا : آپ نے درست کہا کہ ایک بلاک پیچھے میں خود بھی جاسکتی ہوں مگر راستے میں جو تحفظ مجھے میرے شوہر کے ساتھ ملتا ہے وہ اکیلی عورت کو نہیں مل سکتا۔ یادہے جب ہم چھوٹی ہوتی تھیں تو روڈ کراس کرتے ہوئے ہمارے ابو ہمیں پیچھے کرکے خود آگے رہتے تھے کہ کوئی تکلیف ہم تک نہ پہنچے ، بھائی کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تو بھائی خود آگے چلتے اور ہمیں حفاظت کےپیشِ نظر اپنے پیچھے رکھتے۔ مجھے فخر ہے اپنے باپ بھائی شوہر اور بیٹے کے آگے ہونے پر۔ پچھلےدنوں بارشوں میں ہماری کار چلتے چلتے رُک گئی تو میرے شوہر ہی تھے جو ہمیں آرام سے گاڑی میں بٹھاکر خود برستی بارش میں کار ٹھیک کرتے رہےیہاں تک کہ میرا بارہ سالہ بیٹا بھی مجھے بےفکر رہنے کی تلقین کرتا ٹارچ لے کر مسلسل کار کےباہر کھڑا  رہا کہ امی آپ بےفکر ہوکر بیٹھیں بابا اور میں دیکھتے ہیں ۔ گاڑی کاٹائر چینج کرنا ہو یا ہوا بھروانی ہو ، دروازے پر دستک ہو یا دوائی لانی ہو ، راشن کامسئلہ ہو یا پانی کی موٹر خراب ، بجلی گیس کا بل بھرناہو یا بچوں کے معاملات الغرض کوئی بھی ایمرجنسی ہو میرے شوہر آگے ہوتے ہیں مجھے ان سب کی کوئی فکرہی نہیں ہر کام تیار مل جاتا ہے ۔ باپ ہویابھائی شوہر ہویا بیٹا ، یہ چار ایسے مضبوط سہارے ہیں کہ ان کے ہوتےہوئے عورت کو مکمل  تحفظ و کامل ضمانت حاصل  ہےاور یہ محتاجی یا کم مائیگی نہیں بلکہ تحفظ کی یقین دہانی ہے کہ کوئی بھی Problem  ہم  تک آنے سے پہلے ہی وہ Face  کرلیں گے! ہمیں آرام پہنچانے کی خاطر وہ خود بےآرام ہوجاتے ہیں خود بُھوکے رہ کر ہمارے کھانے  کا خیال ، خود بارش میں بھیگ کر ہمیں Protect  کرنا ، خود پُرانے کپڑوں میں گزارہ کر کے ہمیں نیا لباس دینا ، ہرتکلیف خود سہہ کر ہمیں راحت پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہنا ، یہ ان مَردوں ہی کاتو خاصہ ہے مِس فروا ۔ حلیمہ نے دَم بھر کو سانس لینے کے لئے رُک کر آس پاس کی خواتین پر نگاہ دوڑائی تو سب سراہتی نظروں سے حلیمہ کو دیکھ رہی تھیں۔

حلیمہ نے گفتگو کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا : آج مرد نہیں بلکہ بعض عورتیں چند مُراعات ملنے پر بےباک ہوگئی ہیں۔ مرد کا مقام و مرتبہ تو وہی ہے جوشریعت نے مقرر کیا جسے ہم سب نے تسلیم کیا سوائے چند آزاد خیال عورتوں کے! معذرت کے ساتھ جو تحفظات وسہولیات ان چار قسم کے مَردوں کے ذریعے عورت کو میسر ہیں اگر ان مَردوں کو مائنس کرکے اسی تحفظ کا تصور بھی کیا جائے تو یہ صرف خام خیالی ہے۔

مدرسے کی چُھٹّی پر میری بیٹی بھائی کا انتظار کرتی ہے تو یہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ اسکا مان ہے کہ بھائی کےساتھ بحفاظت گھر پہنچوں گی ، لائٹ جانے پر میرے شوہر میرے لئے ٹارچ آن کرتے ہیں تو یہ میری بُزدلی نہیں بلکہ میرا آنر ہے کہ میرا اس قدر خیال رکھاجاتا ہے ، میں ایک بلاک پیچھے جانے کے لئے بھی انتظار کررہی ہوں تو یہ میری کمزوری نہیں بلکہ میرا وقار ہے کہ وہ میراسائبان میرامحافظ ہے۔

فروا نے سنبھلتے ہوئے ایک اور کمزور سی دلیل دی : پھر بھی عورتوں کو بالکل ہی پیچھے تو نہیں رہنا چاہئے۔ دوسرے ملکوں کی عورتیں آج ہر میدان میں مرد کے برابر اور کہیں تو  ان سے بھی آگے ہیں اور ہم کنویں کےمینڈک کی طرح وہیں کی وہیں ہیں! تو حلیمہ بولی : ہمیں اَغْیار کے کلچر اور روایتوں سے کیا سروکار مِس فروا ! ان کا مقابلہ مسلم خواتین سےبھلا کیا ہوسکتا ہے۔  ان کو ان کے حال پر رہنے دیں جوکہ صرف دور سے خوشنمانظر آتے ہیں ، پاس جاکر دیکھو تو اپنی حالت سے وہ خود راہِ فرار چاہتی ہیں۔ جن مضبوط سہاروں اور عزت کے محافظوں کو انہوں نے پسِ پشت ڈالا آج  وہ   ان کی طلب شدّت سے محسوس کرتی ہیں مگر اب چونکہ تمام اختیارات وہ غلطیوں کے سبب  کھوچکی ہیں اس لئے اپنی محرومیوں کو مٹانے کےلئے خالی خُولی دعوے کرکے دوسروں کو بھی اس دلدل میں پھنسانا چاہتی ہیں۔ ہمیں تو جو ہمارے دین نے حقوق دیئے وہی کافی ہیں اور جب ہمارے رب نے مرد کو ہم پر حاکم بنادیا ہے تو ہم کیوں اس سے مقابلہ کرنے یابرابر آنے کا سوچیں!ہم کون ہوتی ہیں  اس کے برابر حق کا دعوی کرنے والیاں جس کو برتری ربُّ العٰلمین نے عطافرمادی؟  بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں حلیمہ آپ ، ہم سب کا بھی یہی نظریہ اور فیصلہ ہے ۔ فرزانہ کےکہنے پر سب ہم آواز ہوکر حلیمہ کی تائید کرنے لگیں۔

مِس اسریٰ مریم نے آخری جملہ کہہ کر حلیمہ کے پرجوش  بیان پر مہر لگائی کہ جب اتنی عزت و اکرام ، خصوصی  قدر و احترام اور بلا معاوضہ آرام ہمیں مل رہاہے تو کوئی احمق ہی ہوگی جو  ان سب سے دستبردار ہوکر الگ سے کسی کے حقوق کا مطالبہ کرےگی۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے ، آمین۔  ہارن کی آواز پر حلیمہ نے حجاب لیا ، سب کو الوداع کہا اور اعتماد سے قدم اُٹھاتی ہوئی گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ناظمہ دارالمدینہ ، لاہور

 


Share