فرمائشوں پر کنٹرول کیجئے

اسلام اور عورت

فرمائشوں پر کنٹرول کیجئے

*ام میلاد عطاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025

تمنائیں اور آرزوئیں ایک طور پر انسان کا سرمایہ بھی ہیں اور ساتھ ہی زندگی میں ایک گہرے دکھ اور حسرتوں کا سبب بھی ۔ انسان انہیں پالتا ہے لیکن اکثر تمنائیں کبھی پوری نہیں بھی ہوتیں ۔  اللہ  پاک کے آخری نبی محمدِ عربی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمان ہے: اگر ابنِ آدم کے پاس سونے  کی دو وادیاں (یعنی دوپہاڑوں کےدرمیان جوجگہ ہوتی ہے وہ) بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اورابنِ آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص404،حدیث:2415)

بَسا اوقات کمانے والا فرد خود کو تھوڑے رزق پر راضی کرلیتا ہے لیکن اس کے دیگر فیملی ممبران اپنی غیرضروری فرمائشوں کا اس پر ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جس سے اس کی زندگی اَجِیرن (مشکل) ہوکر رہ جاتی ہے۔ عورت کو چاہئے کہ ایسی بلاضرورت فرمائشیں نہ کرے کہ جس سے مرد کے لئے مشکلات کھڑی ہوں۔

 اگر شوہر بیوی کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کا شکریہ ادا کرے۔ اسے چاہئے کہ بالخصوص تنگدستی کے دنوں میں اپنے شوہر کے لئے بہترین سپورٹر بن جائے، خوشحالی کے دنوں میں اِن شآءَ  اللہ  الکریم وہ اپنے آپ کو رانی پائے گی، گھر کے اندر اگر تنگی ہے تو یہ پیسوں کی تنگی ہے رشتوں میں تنگی کیوں لا رہے ہیں؟ رشتوں کو تنگ نہ ہونے دیں رشتوں میں وُسعت پیدا کریں  اللہ  پاک نے چاہا تو یہ مالی تنگی بھی اس کی برکت سے دور ہوجائے گی ۔ شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ نہ اتنا خرچ کردو کہ مانگتے پھرو اور نہ اتنا ہاتھ کھینچوکہ  حقوق پورے ادا نہ ہوں۔ میانہ روی اختیار کرنی چاہئے، ہمارا دینِ اسلام میانہ روی، اعتدال  اور  بیلنس کو پسند کرتا ہے۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ اپنی چیزوں میں بیلنس اختیار کریں اگر یہ بیلنس آؤٹ ہوگا تو یہ آپ کو نقصان دہ ثابت ہوگا۔

بعض اوقات ہم اپنی ضرورت سے آگے سہولت ، سہولت سے آگے خواہش اور تمنا تک چلے جاتے ہیں۔ اس وقت معاشرے میں سوشل میڈیا کے ذریعے جو Influence ہے وہ ویسٹرن لائف اسٹائل کا ہے اور ویسٹرن لائف اسٹائل کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ ”کھاؤ، پیو اور جیو!“ اس میں یہی ہے کہ بس کمائیں، کھائیں، گھومیں، پھریں، اڑائیں اور  عیاشی کریں جبکہ مسلمانوں کا نظریۂ حیات ایسا نہیں ہے، ہم نے صرف کمانا ،کھانا پینا، خواہشات میں اڑانا  نہیں ہے بلکہ ہم نے  اللہ  پاک کی رضا اور اس کی خوشنودی کو بھی اس دنیا میں حاصل کرنا ہے، شریعت کے احکامات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہے، اپنے وقت اور مال کو علمِ دین کے حصول میں بھی صرف کرنا ہے، اپنی آمدن سے صدقہ و خیرات بھی کرنا ہے الغرض ہم نے اپنے امور کو بیلنس کے ساتھ لےکر چلنا ہے کہ جس کام میں اعتدال و میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں اعتدال نہیں ہوتا وہ کام بگڑ جاتا ہے۔ اگر آدمی کے پاس خزانہ بھی ہو اور وہ  بےدریغ اس کو لُٹاتا رہے تو خزانہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اعتدال آدھی معیشت ہے آپ یہ چاہتی ہیں کہ فقر و فاقہ سے دور رہیں، اپنی مالی حالت اچھی رکھنا چاہتی ہیں توآپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خرچ کیسے کرنا ہے؟ جب آپ کو خرچ کرنا آگیا تو آپ کی زندگی اعتدال کا بہترین نمونہ ہوجائے گی۔ اور مالی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوں گی۔ کمانا ہر ایک کو آ ہی جاتا ہے مگر خرچ کرنا کسی کسی کو آتا ہے۔ لوگ خرچ کرنا نہیں سیکھتے اور ہمارے ہاں یہ سکھانے کا رُجحان بھی نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے پر اِکتفا کرتے ہیں  اللہ  پاک ان کی سہولتیں بھی پوری فرما دیتا ہے اور جو آدمی سہولتوں کے پیچھے، آسائشوں کے پیچھے، خواہشوں کو پورا کرنے کے پیچھے چلتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ خواہش اور سہولت تو بہت دور، ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔ ربّ فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ (پ19،الفرقان:67)

ابھی جو صورتحال ہے اس کی ایک تجزیاتی بات کی جائے تو یہ عرض ہے کہ کوشش کریں کہ سال دو سال خواہشات کو قابو میں رکھیں اس وقت مہنگائی کا جو سونامی آیا ہوا ہے، معاشی طور پر جو تنگی ہے، وہ آپ کے سامنے ہے، آمدنی کی کمی اپنی جگہ پر ہے، ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اپنے ماہانہ اخراجات کی لسٹ بنالیں اور اس میں سے ان چیزوں کو مائنس کردیں جن  کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے یعنی  تمام راشن اور پہننے اوڑھنے کی چیزیں اور دیگر ضروریات کو چیک کر یں، بچیاں اگر کہہ دیں کہ امی ! اس بار ہم عید پر 3 نہیں 1 ہی جوڑا بنائیں گی تو ہوسکتا ہے کہ بہت ساری چیزیں مائنس کرنے سے آپ سکون کی طرف آجائیں۔ اگر کچھ رقم مزید جمع بھی ہو گئی تو  اللہ  نہ کرے گھر میں اگر کسی بھی طرح کی کوئی مشکل آگئی تو ان حالات کے لئے یہ رقم ہمارے کام آئے گی اور ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا ۔

جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے آپ اپنی ضرورت پوری کرسکتی  ہیں مگر بےجا ضد کرنا شوہر یا سرپرست سے ڈیمانڈ کرنا کہ فلاں ماڈل ، فلاں برانڈ ہی چاہئے اور گھر کے مرد اس کو افورڈ نہ کرسکتے ہوں تو ایسے میں دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو وہ آپ کی فرمائش کو پورا کریں گے یا نہیں کریں گے، فرمائش پوری ہونے کی بھی پھر دو صورتیں بنتی ہیں، یا تو وہ محنت مشقت کر کے دن  رات ایک کر کے ضرورت کو پسِ پُشت رکھ کر آپ کی فرمائش کو پورا کریں گے اور اگر اتنی محنت و مشقت کے باوجود بھی وہ آپ کی فرمائش پوری  نہ کرسکے تو مَعاذَ  اللہ   حرام راستے کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ اور پھر آپ کی طرف سے ایسا رویہ کہ ہمیں کوئی سُکھ کبھی ملا ہی نہیں ہماری خواہشات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور مختلف قسم کے طنز و طعنے دیئے جانے پر دلبرداشتہ ہوکر ان کی طرف سے بھی لڑائی جھگڑے شروع ہونگے گھر کا سکون و امن سب برباد ہوتا چلا جائے گا۔ ان سب معاملات کے علاوہ مزید نقصانات بھی ہونگے جیسا کہ اپنی خواہش والی چیز کسی اور کے پاس دیکھ کر اس سے حسد کرنا،  اللہ  پاک کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کرنا جیسے گناہوں میں پڑنے کا بھی بہت خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

 یہ یاد رکھیں کہ انسان بنیادی طور پر پہلے اپنی ضرورتوں کے لئے کماتا ہے پھر سہولتوں کے لئے کماتا ہے، پھر اس کی توجہ آسائشوں  میں جا پڑتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس لئے آپ پہلے ضرورت پوری کرنے پر فوکس کرلیں، حالات کے پیشِ نظر ان چیزوں پر غور کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

آخر میں ایک مخلصانہ مشورہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہر ہفتے رات نمازِ عشاء کے بعد ہونے والا مدنی مذاکرہ خود بھی ضرور دیکھیئے اور اپنے تمام گھر والوں کو بھی دکھائیے اس میں ملنے والے مہکتے مدنی پھول نہ صرف ہمارے دینی معاملات میں مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ بہترین زندگی گزارنے کے بھی بہت سے مدنی پھول سیکھنے کو ملتے ہیں۔  اللہ  پاک ہمیں بےجا خواہشات، فرمائشوں سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنے اور ہر حال میں صبر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share