کاروانِ علم کے رہبر و رہنما

پیارے آقا ، محمدِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ارشاد فرمایا :

 “ اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوایعنی اﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا ، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے ، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔ ([i])

شرحِ حدیث : اس حدیثِ پاک سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دنیا سے علم اُٹھا لیا جائے گا اور اس کا اُٹھایا جانا ایسے نہ ہوگا کہ علم بُھول جائے گا یا سینوں سے کھینچ لیا جائے گا بلکہ علم کا اُٹھایا جانا علمائے کرام کے دنیا سے انتقال کرجانے سے ہوگا۔ شارحِ بخاری حضرت علامہ ابوالحسن علی بن خلف المشہور اِبنِ بَطّال   رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : اس كا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ کریم کی یہ شان نہیں ہے کہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر علم کا فضل و کرم فرمائے اور پھر اس سے وہ علم واپس لےلے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس بات سے پاک ہے کہ جو علم اللہ کریم کی معرفت کروائے اور ذاتِ الٰہی و رُسُل پر ایمان لانے کا سبب بنے وہی علم کسی کو عطا فرما کر واپس لے لے ، بلکہ علم کا یہ اُٹھایا جانا یوں ہو گا کہ لوگ علم حاصل کرنے کی بجائے وقت ضائع کریں گے ، زندہ رہنے والوں میں ایسے افراد نہ ملیں گے جو وفات یافتہ اہلِ علم کے جانشین بن سکیں ۔ ([ii])

امام اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان   رحمۃ اللہ علیہ   نے حضرت علّامہ مولانا وصی احمد محدّثِ سُورتی   رحمۃ اللہ علیہ  کے وصال کے تذکرے پر فرمایا : قیامت قریب ہے ، اچھے لوگ اُٹھتے جاتے ہیں ، جو جاتا ہے اپنا نائب نہیں چھوڑتا ، امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوّے ہزار شاگرد محدّث چھوڑے ، سیدنا امامِ اعظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ   نے انتقال فرمایا اور ایک ہزار مجتہدین اپنے شاگرد چھوڑے ، محدّث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل! اور اب ہزار مرتے ہیں اور ایک بھی ( نائب ) نہیں چھوڑتے۔ ([iii])

حضرت سیّدنا بدرُالدّين عینی شارحِ بخاری(وفات : 855ھ)   رحمۃ اللہ علیہ   حدیثِ پاک کے حصہ “ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ۔ ۔ الخ  کی شرح میں فرماتے ہیں کہ لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنالیں گے جو اللہ کے دین میں اپنی رائے سے فیصلے کریں گے اور اپنی جہالت کے مطابق فتوے دیں گے۔ یہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قاضی عِیاض   رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا : رسولِ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے اس فرمان کا مِصداق ہم نے اپنے زمانے میں پایا ہے ، شیخ قطبُ الدّین   رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں : قاضی عِیاض اپنے زمانے میں علما کی کثرت کے باوجود ایسا فرما رہے ہیں تو ہمارے زمانے کا کیا حال ہوگا؟ علّامہ عینی   رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں کہ جب شیخ قطب ُالدین کہ جن کے وقت میں فُقَہا اور علما کی ایک بڑی تعداد مَذاہبِ اَرْبَعَہ کی جاننے والی اور محدّثین کی کثیر تعداد تھی ان کا یہ کہنا ہے تو ہمارے وقت کا کیا حال ہوگا؟([iv])

پیارے اسلامی بھائیو! جب آج سے 800سال پہلے یہ حالت تھی تو اب ہمارے دور میں کیا کیفیت ہوگی؟ اَلْاَمَان وَالْحَفِیظ ، یہ وہ دور ہے کہ بہت احتیاط اور حاضر دماغی کے ساتھ اپنے ایمان و عمل  کی حفاظت کرنی ہوگی۔

علما کی وفات ناقابلِ تلافی نقصان

علمائے کرام کا وفات پاجانا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے6 روایات ملاحظہ کیجئے : (1)امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم   رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں : اللہ کریم کے مقرر کردہ حلال اور حرام کی سمجھ رکھنے والے ا یک عالم کی موت کے آگے ہزارعبادت گزاروں کی موت بھی کم ہے جو دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے ہوں([v]) (2)شیرِ ِخدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے منقول ہے : جب عالم وفات پاتا ہے تو 77 ہزار مقربین فرشتے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام میں ایسا رَخْنَہ ہے جسے قیامت تک بند نہیں کیا جاسکتا([vi]) (3)حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ   نے امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم   رضی اللہ عنہ   کے وصال پر فرمایا : میں سمجھتا ہوں کہ آج علم کے دس میں سے نو حصّے چلے گئے([vii]) (5)حضرت سیّدنا سعید بن جُبیر   رضی اللہ عنہ   کا فرمان ہے کہ علما کا دنیا سے جانا لوگوں کی ہلاکت کی علامت ہے([viii]) (6)حضرت سیّدنا حسن بصری   رحمۃ اللہ علیہ   فرماتےہیں : عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی([ix]) (7)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ   رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔ ([x])

علما ئے کرام کی مثال : حضرت سیّدنا امام ابوبکر آجُرِّی   رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں : اے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے اس راستے کے بارے میں جس میں بہت مشکلات و آفات ہوں اور سخت اندھیری رات میں لوگ اس پر چلنے کے محتاج بھی ہوں ، اگر اس راہ میں کوئی روشنی نہیں ہوتی تو لوگ پریشان ہی رہیں گے ، تو اللہ نے ان کے لئے اس راہ میں ایسے چراغ لگادیئے جن سے انہیں روشنی ملی اور لوگ سلامتی و عافیت کے ساتھ اس راہ پر چل پڑے ، پھر ان کے بعد کے لوگ آئے ، انہیں بھی اسی راہ پر چلنے کی ضرورت ہوئی تو اچانک چراغ بُجھ گئے ، اور وہ اندھیرے میں ہی رہ گئے۔ علما کی عام لوگوں میں یہی شان ہے ، لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ فرائض کیسے ادا کرنے ہیں؟ حرام کاموں سے کیسے بچنا ہے؟ اللہ کریم کی عبادت کیسے کرنی ہے؟ ان سب باتوں کا علم علمائے کرام کے وجود سے ہی ہے ، تو جب علما نہ رہیں گے تو لوگ حیران و پریشان رہ جائیں گے اور ان کے وصال سے علم ختم ہوجائے گا اور جہالت عام ہوجائے گی۔ ([xi])

پیارے اسلامی بھائیو! علماکا وصال فرما جانا ہمارے لئے لمحۂ فِکریہ ہے ، اس لئے اَشد ضرورت ہے کہ ہم علمائے کرام کی قدرو توقیر اورعلمِ دین کے حصول کی جانب متوجہ ہوں ، اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن اور عالمِ دین بنائیں۔ ([xii])

علماہی کے دَم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک اس دنیا سے علما کو اُٹھالے گا تو ان کی جگہ جاہل بیٹھ جائیں گے اور دین کے حوالے سے ایسی باتیں کریں گے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی دینی تشریحات اور عقائدِ اہلِ سنّت  کے مخالفین کی موجودگی ہمارے دور میں عام ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے علاقے اور شہر کے عاشقانِ رسول علمائے کرام کا دامن تھام لے اور ہر طرح کے معاملے میں صرف مفتیانِ اہلِ سنّت سے شرعی راہنمائی لے۔

نیز نوجوان علما کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت ، نئی نسل کی اخلاقی وعلمی تربیت کے لئے تقریر و بیان ، تدریس اور تحریر جیسے اہم ترین مَحاذوں پر اپنے اَکابِر کی کمی کو پوراکرنے کی کوشش کریں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ناظم ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])   بخاری ، 1 / 54حدیث : 100

([ii])   شرح البخاری لابن بطال ، 1 / 177

([iii])   ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص238

([iv])   عمدۃ القاری ، 2 / 116 ، تحت الحدیث : 80

([v])   جامع بیان العلم و فضلہ ، ص42 ، رقم : 115

([vi])   الفقیہ و المتفقہ ، 2 / 198 ، رقم : 856

([vii])   معجم کبیر ، 9 / 163 ، رقم : 8809

([viii])   سنن دارمی ، 1 / 90 ، حدیث : 241

([ix])   جامع بیان العلم وفضلہ ، ص213 ، رقم : 654

([x])   شرح السنۃ للبغوی ، 1 / 249

([xi])   اخلاق العلماءللآجری ، ص30

([xii])   اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدارسُ المدینہ اور عالمِ دین بنانے کے لئے جامعاتُ المدینہ میں داخلہ دلوائیے۔


Share