بیٹیوں کی استانی کیسی ہو؟

بیٹیوں کی تربیت

بیٹیوں کی استانی کیسی ہو؟

*ام میلاد عطاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025

تاتوانی دور شو از یار بد                                 یار بد بد تر بود از ماربد

مار بد تنہا ہمیں برجان زند           یار بد بر جان وایمان زند ([i])

یعنی جب تك ممکن ہو برے ساتھی سے دور رہو کیونکہ برا ساتھی برے سانپ سے بھی زیادہ خطرناك اور نقصان دہ ہے اس لئے کہ خطرناك سانپ تو صرف جان یعنی جسم کو تکلیف یا نقصان پہنچاتا ہے جبکہ برا ساتھی جان اور ایمان دونوں کو برباد کردیتاہے۔  ہر صحبت خواہ اچھی ہو یا بری اپنا ایک اثر رکھتی ہے اسی حقیقت کو نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ’’اچھے اور برے مصاحب کی مثال ، مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے ، کستوری اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی، جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی۔‘‘ ([ii])

آج کے دور میں اچھی صحبت بہت کم میسر آتی ہے اس معاملے میں حسّاس  والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی بُری صحبت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، بالخصوص بیٹیوں  کو کہ ایک عورت ہی آگے چل کر  نسلوں کی تربیت کرتی ہے اسی لئے بیٹی کو بچپن سے ہی ایسی صحبت دی جائے کہ اس صحبت کا اچھا   اثر اُس کے بڑے ہونے کے بعد بھی اس پر چھایا رہے،  اور وہ اپنی آنے والی نسلوں کی بھی اچھی تربیت کرسکے۔ بچے کی  پہلی درسگاہ تو اس کی ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد اس کا باقاعدہ  تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے، اور ایک اچھے استاذ کا انتخاب کیا جاتا ہے،لڑکوں کو مرد استاذ اور لڑکیوں کو عورت استانی کے پاس ہی پڑھوایا جائے۔ اِسی مناسبت سے ہم آج بات کرتے ہیں کہ بیٹیوں کی ٹیچر کیسی ہوں؟  چونکہ  طالبِ علم طویل عرصے تک روزانہ استاذ کی صحبت میں بیٹھتے ہیں لہٰذا استاذکی ذات میں پائے جانے والے اوصاف غیر محسوس طور پر اس کےتلامذہ  (Students) میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ اگر ٹیچر خوش اخلاق ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی حسن ِ اخلاق کی  مظہر ہوں گی، اگر ٹیچر  مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ رکھتی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی مسلمانوں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کریں گی، اگر ٹیچر  نیکی کی دعوت کو عام کرنے کا جذبہ رکھتی ہے تو اس  کی اسٹوڈنٹس  بھی نیکی کی دعوت کو پھیلاتے ہوئے نظر آئیںگی، اگر ٹیچر عفو ودرگزر کی پیکر ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی غصے سے کوسوں دور رہنے والی ہوں گی، اگرٹیچر  نیک اعمال  پر عمل کرتی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس  میں بھی عمل کا جذبہ بڑھے گا، اگر ٹیچر  عاجزی اختیار کرنے والی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی عاجزی کی پیکر بن کر رہیں گی ، اگرٹیچر  خوش لباس ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس کے لباس بھی صاف ستھرے دکھائی دیں گے، اگرٹیچر اپنے معاملات (مثلاً قرض اور چیزیں اور تحفے  نہ مانگنے) میں محتاط واقع ہوتی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی اس کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کریں گی، اگر ٹیچر مطالعے کا شوق رکھتی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں بھی کتابیں دکھائی دیں گی ، اگر ٹیچر اپنے اسلاف کا ادب کرتی ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی بزرگوں کا احترام کرنے والی  ہوں گی، اگر ٹیچر  قناعت پسند ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی لالچ سے دامن بچاکر رکھیں گی، اگر ٹیچر  کسی کا احسان لینے کی عادی نہیں ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی کسی سے احسان لینے پر تیار نہیں ہوں گی ،اگر ٹیچر  سلیقہ شعار ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس کی چیزیں بھی کمرے میں بکھری ہوئی دکھائی نہیں دیں گی، اگر ٹیچر  پرہیز گار ہے تو اس کی اسٹوڈنٹس بھی خوف ِ خدا   رکھنے والی ہوں گی ۔ اسی طرح ہر کام میں جیسی ٹیچر  ہوگی اس کا عکس اس کی اسٹوڈنٹس ہوں گی۔ ایک ٹیچر  اپنے اسٹوڈنٹ کو ایک اچھا انسان اور باخبر شخص بننے میں مدد کرتی ہے۔ خیال رہے کہ ملک اور قوم کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار کافی اہم ہوتا ہے کیونکہ ننھے ذہنوں کی آبیاری ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اساتذہ کیوں ضروری ہیں؟ ایک طالب علم کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے، وہ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر اتنا ہی مستحکم ہوتا جاتا ہے۔

انسان کے وجود اور کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:

(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔

(2)استاذ:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔

والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاذ کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاذ)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فضیلت ہے لیکن جب علم سے اس کا واسطہ پڑا تو اعلیٰ فرد بن گیا۔ علم انسان کے اندر نیکی، تقویٰ، پرہیز گاری، زہد و اطاعت، خوفِ خدا اور حسنِ خلق جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔اللہ پاک نے ظلمت و اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کی ہدایت کے لئے نبی آخر الزماں محمد مُصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معلّمِ انسانیت بنا کر بھیجا۔  اساتذہ روحانی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماں باپ اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاذ علم و ہنر سکھا کر انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔استاذ ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی معاشرے میں جہالت کے اندھیرے کو ختم کرتی ہے ۔ استاذ معاشرے کا ایسا پھول ہے جس کی خوشبو سے معاشرے میں محبت کا رشتہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک استاذ کا حقیقی کردار ہوتا ہے۔ ایک استاذ صرف بچوں کو تعلیمی مضامین ہی نہیں پڑھاتا بلکہ وہ بچوں کو اچھی راہ دکھاتا ہے۔ وہ بچوں کی پیشہ ورانہ تربیت کرتا ہے۔ وہ بچوں کو سماجی بہبود  کا شعور فراہم کرتا ہے۔ وہ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ قدرت نے ہر انسان میں ایک خوبی ضرور رکھی ہوتی ہے اور استاذ وہ عظیم ہستی ہے جو اس پوشیدہ خوبی کو نہ صرف آشکار بلکہ اسے نکھارتا بھی ہے۔ تفسیرِ کبیر میں ہے:  اُستاذ اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائب ِ آخرت سے بچاتے ہیں۔([iii])

اسی لئے والدین اپنی بیٹیوں کے لئے ایسی ٹیچر کا انتخاب کریں کہ جس کا اچھا اثر ان کی بیٹی پر پڑے، ایسی ٹیچر کہ جو بےحیائی، بےپردگی و بدمذہبی کو فروغ نہ دیتی ہو۔ اس حوالے سے  امیرِاہل ِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اپنی مشہور کتاب  ’’غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ کے صفحہ 63 پر تحریر کرتے ہیں :  بدمذہب سے دینی یا دنیاوی تعلیم لینے کی مُمانَعَت کرتے ہوئے   اِمامِ اَہل سنّت ، امام اَحمد رَضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں  :  غیر مذہب والیوں (یا والوں ) کی صُحبت آگ ہے، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں  کے مذہب (بھی) اس میں  بگڑ گئے ہیں  ۔([iv])

گناہوں کی آگ میں جلتے، گمراہیت کے بادلوں میں  گھرے اس معاشرے میں  سنّتوں  کی خوشبوئیں پھیلاتا دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول کسی نعمت سے کم نہیں۔ اَلحمدُ لِلّٰہ!دینی ماحول میں  تربیت پاکر سنتیں  اپنانے والا اس طرح زندگی بسر کرنے لگتا ہے کہ نہ صرف ہر آنکھ کا تارا بن جاتا ہے بلکہ اپنے سنتوں بھرے کردار سے کئی لوگوں  کی اصلاح کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ پھر زندگی کی میعاد گزار کر اس شان و شوکت سے دارِ آخرت روانہ ہوتا ہے کہ دیکھنے سننے والے رشک کرنے اور ایسی ہی موت کی آرزو کرنے لگتے ہیں۔ آپ بھی دعوت ِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجائیے۔ دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں  شرکت اور امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے عطا کردہ نیک اعمال پر عمل کو اپنا معمول بنالیجئے، اِن شآءَ اللہ دونوں  جہاں  کی سعادتیں نصیب ہوں  گی۔    

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([i])گلدستہ مثنوی بکھرے موتی، ص94

([ii])مسلم، ص1116، حدیث 2628

([iii])تفسیر کبیر، 1/401

([iv])فتاوٰی رضویہ 23/692


Share