Book Name:Meraj e Mustafa ki Hikmatain
(حدائقِ بخشش، ۱۹۵)
اشعارکی وضاحت:یعنی وہ خداجوہمیشہ باقی و زندہ رہنے والاہے،جب وہ اپنے پیارے کی تعریف فرماتا ہے تو اُس کے بندوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر کوئی ہر وقت میرے محبوب کی تعریف کرے تاکہ میرے محبوب کا محبوب بن کے میرا بھی محبوب بن جائے کیونکہ دوست کا دوست بھی دوست ہوا کرتا ہے۔
جس پیارے آقا محمدِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا حُسن وجمال خدائے ذُوالجلال عَزَّ وَجَلَّ کو بھی پسند آیا ہے،اے گناہگارو!دُنیاکے بربادی والے حُسن کے پیچھے پڑنے کی بجائے اُس محبوب کے رُخِ والضحیٰ اورزُلفِ وَالَّیْل سے پیار کرو، جس کی وجہ سے پُوری کائنات میں بہار آگئی۔
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مشہور مُحاوَرہ ہے کہ”فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَایَخْلُو عَنِ الْحِکْمَۃِ “ یعنی حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہر کام میں بے شُمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے سے ہماری عقلیں قاصِر ہوتی ہیں۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے مَدَنی حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معراج کروائی اس میں ایک حکمت نبیِ پاک ،صاحب ِ لَولاک ،سَیاحِ اَفلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دلجوئی اورتسکینِ خاطر بھی تھی، کیونکہ جس روز صفا کی چوٹی پر کھڑے ہوکر نبیِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قُریْشِ مکہ کو دعوتِ توحید دی تھی ،اِسی روز سے کُفارکے بُغْض و عَداوت کے شُعلے بھڑکنے لگے ، ہر طرف سے مَصائب و آلام کا سیلاب اُمنڈ آیا۔ رَنج و غم کا اندھیرا دن بدن گہرا ہوتا چلاگیا۔ لیکن اس تاریکی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چچا ابُو طالب اور اُمُّ الْمؤمِنین حضرت سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ