Book Name:Aulad Ki Tarbiat Or Walidain Ki Zimmedariyan
سے ستاتے اوراس راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، یوں روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر بسا اوقات بچہ بھی بُرائی کے راستے پر چل پڑتاہے اور بُرے لوگوں کی صحبت میں رہ کر ان کی عادات واطوار اپنالیتاہے گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا اورنشے کی بُری لَت میں پڑکر اپنی دنیاوآخرت برباد کر لیتا ہے۔ آئیے!اس بارے میں ایک عبرت ناک واقعہ سنتے ہیں اور عبرت کے مدنی پھول چنتے ہیں چُنانچِہ
شیخ طریقت،امیرِ اَہلسُنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مَوْلانا ابُو بلال محّمد الیاس عطّار قادِرِی رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف”نیکی کی دعوت“صفحہ نمبر546پر فرماتے ہیں:ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ(زم زم نگرحیدر آباد،بابُ الاسلام سندھ پاکستان کا)ایک نوجوان غالِبًا 1988ء میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوا۔نَمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ چِہرے پر داڑھی شریف سجالی،سر پرعِمامہ شریف اپنی بہاریں دکھانے لگا۔اُس نے مدرَسۃُ المدینہ(بالِغان) میں پڑھنابھی شُروع کردیا۔ اُس کا تعلُّق ایک ماڈَرن اورامیر گھرانے سے تھا،گھر والوں کو اُس کی زندگی میں آنے والا مَدَنی انقِلاب سمجھ میں نہ آیا،چُنانچِہ اس کی مُخالَفت شُروع ہوگئی،طرح طرح سے اُس کی دل آزاریاں کی جاتیں،سنّتوں پر چلنے کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کی جاتیں اور دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا۔وہ کبھی کبھار بے بس ہوکر فریاد کرتا کہ مجھے اس مَدَنی ماحول سے دُور نہ کرو ورنہ پچھتاؤ گے،مگر اُس کی کسی نے نہ سُنی۔مخالَفت کا یہ سلسلہ تقریبًاتین سال تک چلتا رہابِالآخِرتنگ آ کر اُس نے گھر والوں کے سامنے ہتھیارڈال دئیے اور داڑھی شریف مُنڈوا کر دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کو ’’خیرآباد‘‘ کہہ دیا۔بڑے بھائی چُونکہ ڈاکٹر تھے اِس لئے اِسے بھی ڈاکٹر بننے کے لئےسردارآباد،فیصل آباد(پنجاب،پاکستان)کے ایک میڈیکل کالج میں داخِل کروادیا گیا۔جہاں وہ ہاسٹل(اِقامت گاہ)میں بُری صحبت کی نُحوستوں کا شکار ہوکر