Book Name:Namaz Ki Ahmiyat
بعدآپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسےبیمارہو ئے کہ دو ماہ سے زیادہ صاحبِ فراش رہے،جب کچھ صحتياب ہوئے تو زیارتِ روضۂ اَنور کےلیے کمر بستہ ہوئےاور”جَدّہ شریف“سے ہوتےہوئے کَشتی كے ذریعے تین (3)دن کے بعد”رابغ “ کے مقام پہنچے، اوروہاں سے مدینۃُ الرَّسول کےلیے اُونٹ کی سُواری کی، اسی راستے میں جب ”بیرِ شیخ“ پہنچے تومنزِل قریب تھی لیکن فَجْر کا وَقْت تھوڑا رہ گیاتھا۔ اُونٹ والوں نے منزِل ہی پر اُونٹ روکنے کی ٹھانی لیکن اس وقت تك نمازِ فَجْر کا وَقْت ختم ہونے کا اندیشہ تھا، سیّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یہ صُورتِ حال دیکھ کر اپنے رُفَقَا كے ساتھ وہیں ٹھہر گئے اور قافِلہ چلا گیا۔ آپ کے پاس کِرْ مِچ (یعنی مخصوص ٹاٹ کا بنا ہوا ) ڈول تھا مگر رَسی موجود نہیں تھی اور کُنواں بھی گہر ا تھا، لہٰذا عِمامے باندھ کر پانی نکالااور وُضو کرکے وقت کے اندر نماز ادافرمائی ۔مگر اب یہ فکر لاحِق ہوئی کہ طویل عرصہ بیمار رہنے کی وجہ سے کمزوری بہت ہوگئی ہے اتنے مِیل پیدل كیسے چلیں گے؟مُنہ پھیرکر دیکھا تو ايك اجنبی جَمَّال (اُونٹ والا) اپنا اُونٹ لیے اِنتظار میں کھڑا ہے ،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حمدِ الٰہی (عَزَّوَجَلَّ)بجالاكر اُس پر سُوار ہو گئے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۲۱۷، ملخصاً)
مُصطفےٰ کا وہ لاڈلا پیارا واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی
غوثِ اعظم کی آنکھ کا تارا واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی
(وسائلِ بخشش، ص۵۷۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُبْحٰنَ اللہعَزَّ وَجَلَّ !یہ ہے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا ذَوْقِ نماز اور شَوْقِ عِبادت کہ مہینوں کی طویل عَلالت،شدیدکمزوری ونَقاہت اور سفر كی مَشقّت كے باوجودقافِلے کا ساتھ توچھوڑ دیا، مگرسب سےافضل عبادت نماز چھوڑناگوارا نہ کِیا۔ہمیں چاہیے کہ خوشی ہویا غم ہرموقع پرنماز کی پابندی کریں اورجنہیں نماز پڑھنا نہیں آتی تو سیکھنے میں ہر گز شرم محسوس نہ کریں۔اور جو نماز پڑھنا توجانتے ہیں مگر پڑھتے نہیں اور اس طرح کے شیطانی وسوسوں کا شکار