Book Name:Hazrat Musa Ki Shan o Azmat
کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کو اپنی قبر میں نماز کی حالت میں ملاحظہ فرمایا تھا۔ * آپ نے معراج کی رات حُضور پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِمامت میں نماز پڑھنے کی سعادت پائی تھی۔ * اُمَّتِ محمدیہ پر آپ کا ایک بہت بڑا اِحسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ کی بدولت پچاس (50)نمازیں کم ہوکر پانچ(5)رہ گئیں۔ * آپ نے اپنا عصا پتھر پر مارا تو اُس میں سے بارہ(12) چشمے بہہ نکلے تھے۔ * آپ نے دریائے نیل پر اپنا عصا مارا تو اُس میں بارہ(12) سڑکیں بن گئیں تھیں۔ * آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر آسمان سے مَن و سَلْوی اُترا تھا(مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا ، اور سلویٰ بُھنی ہوئی بٹیریں)۔ * آپ کی نافرمانی کرنے کے سبب بنی اِسرائیل پر جب بھی کوئی عذاب آتا تو وہ آپ ہی کو مدد کے لئے پکارتے تھے۔ * آپ اِنتہائی حسین و جمیل تھے۔ * اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا اور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی ، چنانچہ
کتاب “ عجائبُ القرآن مع غرائب ُالقرآن “ میں لکھا ہے : ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا ، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اُس مبارَک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے 2 معجزات کا ظُہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔ اُس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا معجزہ تھا وہ اُس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی مُعْجِزَہ اُس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔
اللہ پاک نے اِس واقعہ کا ذِکْر قرآنِ مجید میں اِس طرح بیان فرمایا :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ
ترجمۂ کنزُ العِرفان : اے ایمان والو!اُن لوگوں جیسے نہ ہونا