Book Name:Faizan e Syeda Khatoon e Jannat
اس میں لفظ ”رِزْق (روزی)“ استعمال ہوا، عُلَمائے کرام نے اس لفظ کو عام رکھا ہے، یعنی رِزْق صِرْف مال کو نہیں کہتے بلکہ اللہ پاک کی دِی ہوئی ہر نعمت ہی رِزْق ہے اور اللہ پاک کی دی ہوئی ہر نعمت کو راہِ خُدا میں خرچ کرنا صدقہ ہے۔([1]) مثلاً *اللہ پاک نے ہاتھ عطا فرمائے، *ہاتھوں سے راستے کی تکلیف دِہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے، *اللہ پاک نے پاؤں عطا فرمائے، *ان کے ذریعے چل کر مسلمان بھائی کی مدد کے لئے جانا صدقہ ہے، *اللہ پاک نے عِلْم عطا فرمایا، دوسروں کو عِلْم سکھانا صدقہ ہے، *اللہ پاک نے ہنر عطا کیا، دوسروں کو ہنر سکھانا صدقہ ہے، جو نعمت اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمائی ہے، اس نعمت کو اللہ پاک کی راہ میں، مسلمانوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرنا صدقہ ہے، حتی کہ اگر ہم کسی کو کچھ دے نہیں سکتے تو اپنے مسلمان بھائی سے جب ملیں تو خندہ پیشانی سے یعنی مسکراتے ہوئے ملیں، یہ بھی صدقہ ہے ۔
اور ایک بہت اہم اور بطورِ خاص جو چیز سیِّدہ فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے کردار مُبَارَک سے ملی وہ یہ کہ ہم اَور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم مسلمان بھائیوں کے لئے دُعا تو کر سکتے ہیں، یہ بھی خیر خواہی ہے اور اس کا بھی اِنْ شَآءَ اللہ! ثواب ملے گا۔ ہم لوگ عموماً دُعا مانگنے میں سُستی کرتے ہیں، حالانکہ دُعا مانگنے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا، اس کے باوُجود ہم دوسروں کے لئے تو کیا دُعا مانگیں گے،اپنے لئے بھی دُعا بہت کم مانگتے ہیں، اگر ہم اپنے لئے بھی دُعا مانگیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کو بھی اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں تو اس کا جو ثواب ملے