مراحلِ طلاق اور عورت پر اسلام کے احسانات (دوسری اور آخری قسط)

آخر درست کیا ہے؟

مراحلِ طلاق اور عورت پر اسلام کے احسانات

 ( دوسری اور آخری قسط )

مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2022

 مراحلِ طلاق کی تفصیل کے ساتھ اب عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حوالے سے دینِ اسلام کی اُن تاکیدات و احکام پر ایک نظر ڈالیں کہ کس کس انداز میں عورت کی رِعایت اور اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک حکم تو یہ دیا کہ شوہر کو دو طلاقوں تک رجوع کا اختیار ہے اور جیسے ہی وہ تیسری طلاق دیتا ہے ، اُس کا رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے اور عورت اپنے فیصلے میں آزاد ہے۔اب اِس کے ساتھ مزید فرمایا کہ بیوی کو رکھنے یا چھوڑنے کے حوالے سے تمہارے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ اچھے ، اعلیٰ اور حسنِ معاشرت کے زریں اصولوں کے مطابق اُسے دوبارہ اپنی زوجیت میں رکھو اور دوسرا یہ کہ اچھے باوقار انداز سے چھوڑ دو۔ سُبْحٰنَ اللہ !  کیسی خوب صورت تعلیم ہے کہ بہرصورت بیوی کے ساتھ اچھا سلوک ہی کرو۔

طلاق و رجوع کے موقع پر بعض لوگ نہایت گھٹیا پَن کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ایک یا دو طلاقوں کے بعد رجوع کر کے بیوی کو نکاح میں روک لیتے ہیں ، تاکہ اُس پر ظلم و زیادتی کریں ، اُسے مزید ستائیں ، اُس کی زندگی اَجیرن بنائیں اور اُس کے ماں باپ ، بہن بھائیوں کو مزید تنگ کریں۔قرآن کی رُو سے یہ شیطانی حرکتیں ، خدا کی حدوں کو توڑنے والے افعالِ بد ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ حد مقرر کی ہے کہ عورت پر ظلم نہیں کرنا ، بلکہ اُسے اچھے طریقے سے رکھنا ہے ، تو اِس حکم اور حدبندی کے باوجود شوہر کا بیوی کو سَتانا ، خدا کی حُدود پامال کرنا ہے ، کیونکہ خداکا فیصلہ اور طے کردہ حد یہ ہے کہ اگر رکھنا ہے تو بغیر تکلیف دیے ” بِمَعْرُوْفٍیعنی اچھے طریقے سے رکھو اور اگر چھوڑنا ہی ہے تو ظلم و زیادتی اور طعن و تشنیع کے بغیر  ” بِاِحْسَانٍ “  یعنی احسان کے ساتھ چھوڑ دو اور جہاں تک عورتوں کو تکلیف دینے کے لیے زَوْجِیَّت میں رکھنے کا تعلق ہے تو اِس بارے میں ذرا ربُّ العالمین کا غضب اور جلال ملاحظہ فرمائیں ، سورۃُ البقرۃ میں فرمایا :

وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ۪-وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗؕ-وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا٘-وَّ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠    (۲۳۱)   ترجمہ  : اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی  ( عدت کی اختتامی )  مدت  ( کے قریب )  تک پہنچ جائیں تو اس وقت انہیں اچھے طریقے سے روک لو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے نہ روک رکھو تاکہ تم ( ان پر )  زیادتی کرو اور جو ایسا کرے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا مذاق نہ بنالو اور اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو اور اس نے تم پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے  (اسے یاد کرو )  اس کے ذریعے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔  ( پ2 ، البقرۃ  : 231 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ اکبر ، حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں بیان کردہ حقوقِ زوجہ کی رعایت و تاکید و شدت پر اگر گھنٹوں بھی لکھا جائے تو کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی تاکید کے ساتھ یہاں عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم اور انہیں تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ فرمایا کہ جب عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت ختم ہونے لگے ، تو اچھے طریقے سے رکھ لو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔ یہ ہرگز حلال نہیں کہ بیوی کو تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے کی شیطانی نیت کے ساتھ رجوع کرو اور اس مُوذِی ذہنیت کے ساتھ انہیں اپنے پاس روکو کہ  ” اب ذرا میں اِن کو بتاتا ہوں کہ میں کیا چیز ہوں اور اب میں ان کی ناک رگڑوا کراور پاؤں کو ہاتھ لگوا کر چھوڑوں گا “  اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یوں زیادتی نہ کرو ، کیونکہ بیوی پر زیادتی حقیقت میں اپنی جان پر ظلم ہے کہ خدائی احکام کی خلاف ورزی کرکے شوہر خود کو جہنم کا مستحق بنا کر اپنے اوپر ظلم کررہا ہے۔

پھرفرمایا کہ ’’ اور اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا مذاق نہ بنالو ‘‘ یعنی عورتوں سے بدسلوکی ، ایذاء و زیادتی اور انہیں نقصان پہنچانا اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا مذاق بنانا ہے ، کیونکہ خدا نے تو یہ بیویاں تمہارے لیے حلال کیں ، اور اُن کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا ، اُن کے ساتھ شفقت اورپیار مَحبت سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ، اُن کے ساتھ حسنِ معاشرت اور عفو و در گزر کا رویہ اختیار کرنے کا طریقہ بتایا لیکن تم اِس رشتہِ زوجیت ، بیوی اور اُس کے متعلقہ احکامات فراموش کرکے اپنی اَنانِیَّت ، ضد ، ہٹ دھرمی ، خستِ طبع کی وجہ سے بیویوں پر ظلم کا راستہ اختیار کرو تو یہ خدائی حدود کو پامال کرنا اور خدا کی آیتوں کو مذاق بنانے کے برابر ہے۔

پھر فرمایا کہ اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو کہ تم نکاح کے وقت ایجاب و قبول کا ایک جملہ بولتے ہو اور خدا تمہارے لیے یہ عورتیں حلال کردیتا ہے ، کہ نکاح میں کیا ہوتا ہے؟کون سا پہاڑ کھودنا پڑتا ہے؟ صرف چند جملے ہیں ، جس کی وجہ سے خدا تمہارے لیے اُس چیز کو حلال کر دیتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں تو اور کیا ہے؟

پھر فرمایا کہ خدا کایہ احسان بھی یاد کرو کہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری جس میں تمہیں خوشگوار زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ، پھر فرمایا کہ اِن سب ہدایات کو معمولی مت سمجھو کیونکہ یہ ساری کائنات کے خالق و مالک اور اَحکم الحاکمین کی طرف سے نصیحتیں ہیں جو وہ بندوں پر رحمت فرماتے ہوئے انہیں کرتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ لہٰذا ایسا ہر گز نہیں کہ تم عورتوں پر ظلم کرو ، اُنہیں تنگ کرو ، پریشان کرو اور پھر یہ سمجھو کہ مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں اور میں مفت کا فرعون بنا رہوں ، میں جو چاہوں کروں ، میں جیسے چاہوں ، بیوی پر ظلم کروں ، اُسے تنگ کروں ، بیوی کے ماں باپ کو چوراہے میں رُسوا کروں اور دکھ پہنچاؤں ، نہیں نہیں !  فرمایا : اللہ ہر شے کو جانتا ہے اور وہ تم سے تمہارے ایک ایک عمل ، ایک ایک حرکت کا حساب لے گا۔

 اب دینِ اسلام کی تعلیمات میں طلاق کا اگلا مرحلہ ملاحظہ کریں کہ اگر بالآخر میاں بیوی میں حتمی جدائی ہوجائے تو عموماً دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ شوہر کم ظرفی اور گھٹیاپن کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں لیکن دین ِ اسلام نے یہاں بھی عورت کی حمایت کی اور بتایا کہ طلاق کے بعد بھی شوہر پر بیوی کے کچھ حقوق باقی ہیں اور وہ یہ کہ شوہر کو حکم ہے کہ بیوی کے ساتھ کم ظرفی اور نِیچ پَن کا مظاہرہ نہ کرے ، بلکہ باوقار رویہ اختیار کرے جس کی ایک واجب صورت یہ ہے کہ شوہر نے حالتِ زوجیت میں بیوی کو جو تحائف دئیے ہوں وہ اس سے واپس مانگنا شروع نہ کر دے ، یہ حرام ہےچنانچہ فرمایا :  وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا  ” اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیا ہو اس میں سے کچھ واپس لو “  ( پ2 ، البقرۃ : 229) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یعنی ایسا نہ ہو کہ طلاق کے بعد شوہر حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے کہ شادی پر ہمارا اتنا خرچہ ہوا تھا ، فلاں موقع پر ہم نے اتنی رقم خرچ کی تھی ، فلاں موقع پر بیوی کو یہ تحفہ دیا تھا ، لہٰذا اب یہ ساری رقم بیوی یا اُس کے گھر والے ہمیں ادا کریں۔ شوہر کو حکم دیا گیا کہ یہ حرکتیں نہ کرے اور یہ اس کے لیے ہر گز جائز نہیں ، بلکہ شوہر نے جو کچھ بیوی کو دے دیا ، وہ اب بیوی کا ہے ، شوہر  کو اُس میں سے کچھ بھی واپس طلب کرنا حلال نہیں۔

 دینِ اسلام کے اِن احکام کو ذرا دل کی گہرائیوں سے پڑھیں اور غور کریں کہ جب طلاق جیسے جدائی کے مرحلے میں دینِ اسلام قدم قدم پر عورتوں کے حقوق کی رعایت اتنے شان دار انداز میں کرتا ہے تو عام زندگی میں عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی کیسی خوبصورت تعلیم و تاکید ہوگی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*   نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Videos

Comments


Security Code