بےمثال امام کی مثال نگاری

العلم نور

بےمثال امام کی مثال نگاری

*مولانا محمد عباس عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2022

 کسی کو بات سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ مثال دے کر سمجھانا بھی ہے۔ قراٰنِ کریم میں کئی مقامات پر مثالیں بیان ہوئیں اور معلمِ اعظم جنابِ رسولِ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی کئی احکام و نصائح کو مثال کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سُنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے بھی اپنے کلام میں جابجا یہ دِل کَش اُسْلوب اپنایا ہے۔ صفرالمظفر 1440ھ میں سوسالہ عُرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر شائع ہونے والے خُصوصی شمارے  ” فیضانِ امامِ اہلِ سُنّت “  میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کی کتابوں سے22 جبکہ صفرالمظفر 1441ھ میں مزید 6مثالیں پیش کی گئی تھیں ،  اب کلامِ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ سے مزید 5 مثالیں پیشِ خدمت ہیں :

 ( 1 ) اللہ ورسول کا معاملہ اور ذاتی معاملہ : دینی معاملات کی اہمیت کو سمجھنے اور اپنے ذاتی کاموں پر انہیں ترجیح دینے کی تربیت فرماتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :   ” آدمی اگر اللہ ورسول کے معاملہ کو  ( کم از کم )  اپنے ذاتی معاملہ کے برابر ہی رکھے تو دین میں اس کی سرگرمی کے لئے بس  ( کافی )  ہے ،  ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ذرا سی نالی یا پرنالے کی مِلک بلکہ مُجرّد  ( صرف )  حق کے لئے کس قدر جان توڑ عرق ریزیاں  ( کوششیں )  کرتا ہے،  اس کا مقدمہ مُنْتَہا  ( انجام )  تک پہنچاتا ہے ،  کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا  ( کوئی کسر نہیں چھوڑتا ) ،  ( ایک )  پیسہ کے مال پر ہزار اٹھادیتا  ( خرچ کردیتا )  ہے ،  دنیوی فریق کے مقابل  ( سامنے )  کسی طرح اپنی دبتی  ( شکست )  گوارا نہیں کرتا۔ “  [1]

 ( 2 )  محبتِ صحابہ و اہلِ بیت : صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی محبت کا درس دیتے ہوئے اور جو لوگ صحابۂ کرام کو بُرا بھلا کہتے ہیں ان سے اپنا دامن اور ایمان بچانے کی نصیحت کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ ایک مثال ارشاد فرماتے ہیں :   ” مسلمانو! ذرا اِدھر خدا و رسول کی طرف متوجہ ہو کر ایمان کے دِل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو۔ اگر کچھ لوگ تمہارے ماں باپ کو رات دن بلاوجہ محض فحش مُغلَّظہ  ( یعنی گندی گندی )  گا لیاں دینا اپنا شیوہ کرلیں بلکہ اپنا دین ٹھہرالیں ،  کیا تم ان سے بکشادہ پیشانی ملوگے ؟  حاشا! ہر گز نہیں۔ اگر تم میں نام کو غیرت باقی ہے ،  اگر تم میں اِنسانیت باقی ہے ،  اگر تم ماں کو ماں سمجھتے ہو ،  اگر تم اپنے باپ سے پیدا ہو تو اُنہیں دیکھ کر تمہارے دل بھر جائیں گے ،  تمہاری آنکھوں میں خُون اُترے گا ،  تم اُن کی طرف نگا ہ اٹھانا گوارانہ کروگے۔ لِلّٰہ انصاف! صدیقِ اکبر وفاروقِ اعظم  ( رضی اللہ عنہما )  زائد یا تمہارے باپ ؟  امُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ  ( رضی اللہ عنہا )  زائد یا تمہاری ماں ؟  ہم صدیق وفاروق  ( رضی اللہ عنہما )  کے ادنیٰ غلام ہیں اور اَلحمدُ لِلّٰہ کہ امُّ المؤمنین  ( رضی اللہ عنہا )  کے بیٹے کہلاتے ہیں ،  اُن کو گالیاں دینے والوں سے اگر یہ بر تاؤ نہ بر تیں جو تُم اپنی ماں بلکہ اپنے آپ کو گالیاں دینے والوں سے بر تتے ہو تو ہم نہایت نمک حرام غلام اور حد بھر کے بُرے ناخلف  ( یعنی نااہل )  بیٹے ہیں۔ ایمان کا تقاضایہ ہے ، آگے تم جانواور تمہارا کام۔ “  [2]

 ( 3 ) باغ کی سیر :  کسی مجلس کی سب اچھی باتیں چھوڑ کر بُری بات آگے پہنچانے والے کی مثال حدیثِ پاک میں اُس آدمی کی سی بیان ہوئی ہے جو بکریوں کا پورا ریوڑ چھوڑ کر رکھوالی کا کُتّا پکڑ لائے۔  ( ابن ماجہ ، 4 /  456 ، حدیث : 4172 )  اس سے ملتے جلتے معاملے پر امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :   ” اپنی اغراضِ فاسدہ  ( بُرے مقاصد )  کے لئے اس کی کتاب بینی  ( کتاب پڑھنے )  کی مثال بالکل سؤر اور سیرِ باغ کی ہوتی ہے ،  پُھول مہکیں ،  کلیاں چٹکیں ،  تختے لہکیں ،  فوّارے چھلکیں ،  بلبلیں چہکیں ،  اِسے  ( سؤر کو )  کسی لطف و سرور سے کام نہیں ،  وہ اس تلاش میں پھرتا ہے کہ کہیں نجاست پڑی ہو تو نوشِ جان کرے  ( یعنی مزے سے کھائے )  بعینہٖ یہی حالت گمراہ بد دین کی ہوتی ہے ،  ہزار ورق کی کتاب میں لاکھ باتیں نفیس و جلیل  ( عمدہ وعظیم )  فوائدکی ہوں اُن سے اِسے بحث نہ ہو گی ،  کتاب بھر میں اگر کوئی غلط وباطل وخطا جملہ اپنے مطلب کا سمجھے گا اُسی کو پکڑ لے گا اگرچہ واقع  ( حقیقت )  میں وہ اس کے مطلب کا بھی نہ ہو ،  اتنی بات اس میں خنزیر سے بھی بڑھ کر ہوئی کہ وہ  ( سؤر )  نجاست لے گا تو اپنے مطلب کی اور اِسے  ( بد مذہب کو )  اس کی بھی تمیز نہیں۔ “  [3]

 ( 4 )  فونوگراف : فونوگراف یا گراموفون ایک ریکارڈر ہے جو تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے 1877ء میں ایجاد ہوا ،  اس میں آوازیں ریکارڈ ہوجاتی تھیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ فونوگراف میں چونکہ اصلی آواز نہیں ہوتی بلکہ آواز کی نقل ہوتی ہے لہٰذا فونوگراف سے حرام آوازیں  ( گانے موسیقی وغیرہ )  سُننے میں مَعَاذَاللہ کوئی حرج نہیں۔ امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں رسالہ  ” اَلْکَشْفُ شَافِیا حُکْمُ فُونُوجرافیا “  تحریر فرمایا اور واضح فرمایا کہ جن آوازوں کا فونوگراف سے باہر سننا حرام ہے اُن کا فونوگراف میں بھی سننا حرام ہے۔ امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ اس مغالطے کا پول کھولتے ہوئے مثال سے وضاحت فرماتے ہیں :   ” حال تو جب کُھلے کہ زید کی ہِجو  ( مذمّت )  یا اس کے والدین پر گالیاں اس آلہ  ( فونوگراف )  میں بھر کر سُنائی جائیں... کیا اس پر وہی ثمرات  ( اثرات )  مرتّب نہ ہوں گے ؟  جو فونو سے باہر سننے میں ہوتے! پھر اپنے نفس کے لئے فرق نہ کرنا اور واحدِ قہّار کی مَعْصِیَتوں  (نافرمانیوں )  کو ہلکا کرلینے کے لئے یہ تاویلیں  ( بہانے )  نکالنا کس قدر دیانت سے دُور و مہجور ہے۔ “  [4]

 ( 5 ) شہد اور زہر :  تقدیر کے نازک مسئلہ پر امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ نے رسالہ  ” ثَلْجُ الصَّدْرِ لِاِیْمَانِ الْقَدْرِ “  تحریر فرمایا جو اپنے موضوع پر ایک منفرد تحریر ہے ،  امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک بہت عمدہ مثال بیان فرمائی ،  امام لکھتے ہیں :  ” دو پیالیوں میں شہد اور زہر ہیں اور دونوں خود بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں ، شہد میں شِفاء ہے اور زہر میں ہلاک کرنے کا اثر بھی اُسی نے رکھا ہے۔ روشن دماغ حکیموں کو بھیج کر بتا بھی دیا ہے کہ دیکھو! یہ شہد ہے ،  اس کے یہ منافع  ( فائدے )  ہیں ،  اور خبردار! یہ زہر ہے ،  اس کے پینے سے ہلاک ہوجاتا ہے ۔ ان ناصح اور خیر خواہ حکمائے کرام کی یہ مبارک آوازیں تمام جہان میں گونجِیں ،  اور ایک ایک شخص کے کان میں پہنچِیں۔ اس پر کچھ نے شہد کی پیالی اٹھاکر پی اور کچھ نے زہر کی۔ “

 شہد بھی اللہ پاک نے بنایا زہر بھی اسی کی تخلیق ہے ،  پھر زہر پینے والے سے باز پُرس کیوں ہوتی ہے ؟  اس وسوسے کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :   ” ہاں! بازپرس کی وہی وجہ ہے کہ شہد اور زہر اِسے بتادیے تھے۔ عالی قدر حکمائے عظام کی معرفت  ( یعنی ذریعے )  سے نفع نقصان جتادیے تھے۔ دَسْت ودَہان  ( ہاتھ ،  منہ )  وحَلْق اس کے قابو میں کردیے تھے۔ دیکھنے کو آنکھ ، سمجھنے کو عقل اسے دے دی تھی۔ یہی ہاتھ جس سے اس نے زہر کی پیالی اٹھا کر پی ،  جامِ شہد کی طرف بڑھاتا اللہ تعالیٰ اُسی کا اٹھنا پیدا کردیتا۔ “

کچھ آگے چل کر مثال سے موضوع کی طرف آتے ہوئے فرماتے ہیں :   ” آدمی انصاف سے کام لے تو اِسی قدر تقریر و مثال کافی ہے۔ شہد کی پیالی اطاعتِ الٰہی ہے اور زہر کا کاسہ اُس کی نافرمانی۔ اور وہ عالی شان حکماء ،  انبیائے کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام ۔ اور ہدایت اس شہد سے نفع پانا ہے کہ اللہ ہی کے ارادے سے ہوگا اور ضَلالَت  ( گمراہی )  اس زہر کا ضَرَر  ( نقصان )  پہنچنا کہ یہ بھی اُسی کے ارادے سے ہوگا ،  مگر اطاعت والے تعریف کئے جا ئیں گے اور تمرُّد  ( سرکشی )  والے مذموم ومُلْزَم ہو کر سزا  پائیں گے۔ “  [5]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ،  شعبہ تراجم ،  المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] فتاوی رضویہ ،  14 / 575

[2] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ،  ص170

[3] فتاویٰ رضویہ ،  15 / 467

[4] فتاویٰ رضویہ ،  23 / 437

[5] فتاوی رضویہ ،  29 / 290-292


Share