ہم میں سے نہیں

حدیث شریف اور اس کی شرح

ہم میں سے نہیں

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر2022

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا یعنی جوہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی عزّت نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ۔[1]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان  ” وہ ہم میں سے نہیں “  کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی طریقے اور راستے پر نہیں ہے۔[2]

 چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزّت کے مفہوم پر مشتمل کئی فرامینِ مبارکہ ہیں جو مختلف کتبِ حدیث میں جگمگا رہے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بڑوں کی عزّت اور چھوٹوں پر رحم کرنے والوں کو یہ خوش خبری بھی سنائی ہے :   * یا اَنَسُ وَقِّر ِالْكَبِيْرَ وَارْحَمِ الصَّغِيْرَ تُرافِقُنِيْ فِي الْجَنَّة یعنی اے انس! بڑوں کی عزّت کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو ، تم جنَّت میں میرا ساتھ پالوگے۔[3]  * بڑوں کی عزّت کرو  ، چھوٹوں پر رحم کرو میں اور تم  (قیامت میں )  ان  ( دو انگلیوں )  کی طرح آئیں گے۔آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک ساتھ مِلایا۔[4]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ذات تو سراپا شفقت و کرم ہے  ، دامنِ مصطفےٰ ہرایک کےلیے سائبان ہے ،  اسی شفقت و کرم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امت کو غلطیوں سے بچانے اور معاشرے کودرست سمت لے جانے کے لئے  ” وہ ہم میں سے نہیں “  کی وعید سُناکر چند امور کی نشان دہی فرمائی ہے۔ اُن میں سے دو یہ ہیں :

 ( 1 ) چھوٹے پررحم نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں :  چھوٹوں پر رحم کرنے سےمرادیہ ہےکہ چھوٹوں سے غفلت و نادانی یا کم عقلی کی وجہ سےغلطی ہوجائےتوبڑےشفقت ومہربانی اور تعلیم و رہنمائی کےذریعےاُن پررحم کریں۔[5]

چھوٹوں پر رحمتِ مصطفےٰ کے چند انداز :  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چھوٹوں پر شفقت کے چند انداز ملاحظہ کیجئے چنانچہ حضرت جابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تحفے میں ایک برتن میں حلوا پیش کیا گیاتو آپ نے ہم سب کو تھوڑا تھوڑا حلوا کھلایا ، جب میری باری آئی مجھے ایک بار کھلانے کے بعد فرمایا :  کیا تمہیں اور کھلاؤں؟میں نے عرض کی : جی ہاں ، توآپ نے میری کم عُمری کی وجہ سے مجھے مزید کھلایا ، اس کے بعد اسی طرح باری باری آخری فرد تک سب کو کھلاتے چلے گئے۔[6]رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سفر سے واپس تشریف لاتےاور اپنے گھرانے کے بچّوں سے ملاقات ہوتی ،  تو آپ بعض بچّوں کو سواری پر اپنے آگے اور بعض کو پیچھے سوار فرماتے اور جو بچّے رہ جاتےان کے متعلق صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو فرماتے کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھالیں۔ بسا اوقات یہ بچّے اس بات پر فخر کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اپنے آگے سوار کیا اور تجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور بعض بچّے یوں فخر کا اظہار کرتے کہ رسول ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےان کے متعلق صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھا لیں۔[7]

چھوٹوں پر شفقت کے 9انداز :  چھوٹے بچوں پر شفقت و مہربانی کے یہ انداز اختیار کیجئے :  ( 1 )  بچوں کو اللہ پاک کی امانت سمجھ کر محبت بھراسلوک کیجئے  ( 2 ) انہیں پیار کیجئے  ( 3 ) بدن سے لپٹائیے  ( 4 ) کندھے پر چڑھائیے (5 ) ان کے ہنسنے ،  کھیلنے ،  بہلنے کی باتیں کیجئے  ( 6 ) ان کا دل خوش کرنے کا لحاظ ہروقت رکھئے  ( 7 ) موسم کا نیاپھل اورمیوہ اِن کو دیجئے کہ وہ بھی تازے پھل ہیں ،  نئے کو نیا مناسب ہے  ( 8 ) کبھی کبھی اپنی گنجائش کے حساب سے انہیں کھانے ،  پہننے اور کھیلنے کے لئے شرعاً جائز چیزیں دیتے رہئے۔ نوٹ : بہلانے کیلئے جھوٹا وعدہ نہ کیجئےبلکہ بچے سے بھی وعدہ وہی جائز ہےجس کو پورا کرنے کاارادہ ہو  ( 9 ) اپنے چند بچّے ہوں تو جو چیز دیجئے سب کو برابر دیجئے نیز ایک کو دوسرے پر دینی فضیلت کے بغیر ترجیح نہ دیجئے۔[8]

 ( 2 ) بڑوں کی عزّت نہ کرنے والاہم میں سےنہیں : حدیثِ پاک کا دوسرا حصہ بڑوں کی عزت کے حکم پر مشتمل ہے ،  جس میں فرمایا گیا کہ جو ہمارے بڑے کی عزّت نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں۔

بڑوں میں جہاں والدین اور دیگر رشتے دار شامل ہیں وہیں ٹیچرز ،  علم ،  عہدے اور تجربے میں اونچے مقام پر فائز افراد بھی شامل ہیں اور اِن سب کو عزّت دینا اور مقام و مرتبےکا لحاظ رکھنا اسلامی تعلیمات کا اہم حصّہ ہے۔ ذراتصّور کیجئے کہ جہاں بڑوں کی عزّت نہ کرنے کا رواج پڑگیا ہو تو وہاں اولاد والدین کے سامنے زبان چلاتی ،  ہاتھ اُٹھاتی اور کہنا نہیں مانتی ہے ،  بوڑھے دادا ،  دادی ،  نانا ،  نانی کی نقل اُتار کر اور نصیحت نہ مان کر دل دکھاتی ہے بلکہ بسااوقات تواپنی شرارتوں سےاِن لوگوں کونقصان بھی پہنچاتی ہے ،  عزّت نہ دینےکی بری عادت صرف گھر ، خاندان اوررشتہ داروں پرہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اِس بُری عادت کا نشانہ ٹیچرز ،  تجربہ کارلوگ ،  معاشرے کی بااثر شخصیات بھی بن جاتی ہیں اور الزام تراشی  ، غیبت وچغلی وغیرہ کے ذریعے اُن کا براچرچا کرکے اپنی دنیا اورآخرت دونوں خراب کرتے ہیں ،  اِس خراب عادت میں مبتلا افراد اتنے بےخوف ہوجاتے ہیں کہ شرعی احکام کا مذاق اُڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم سب کو غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہماری کسی بات یا کام سےکسی بڑے کی عزّت کو توکوئی نقصان نہیں پہنچے گا ،  اگر کسی بھی قسم کا کوئی اندیشہ ہو تو اُسے فوراًچھوڑ دیجئےکہ اِسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ۔

کس ” بڑے  “ کی عزت کی جائے گی؟یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اسلام نے ہمیں اُنہی بڑوں کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے جو بدمذہب نہ ہوں۔اگر کوئی بڑا بدمذہب ہوتو اُس سے متعلق اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کایہ فرمان ہے :  جو کسی بد مذہب کو سلام کرے یا اُس سے بَکُشادہ پیشانی ملے یا ایسی بات کے ساتھ اُس سے پیش آئے جس میں اُس کا دل خوش ہو ، اس نے اس چیز کی تحقیر کی جواللہ پاک نے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اُتاری۔[9]

اسی طرح ایسا فاسق شخص کہ جس کا فسق سب پر آشکار ہو ،  اعلانیہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اس کی بھی دینی تعظیم نہیں کی جائے گی یعنی اسے امام ،  پیر یا رہنما و رہبر بنانے کی اجازت نہیں۔

 معاشرتی بگاڑ کی وجہ اسلامی تربیت کی کمی ہے :  وہ دور بھی تھا کہ ہر مسلمان ایک دوسرے کی عزّت و حُرمت کا پاسدار ،  حُسنِ اَخلاق کا آئینہ دار ،  باادب و حَیا دار اور سُنّتِ سرکارکی چلتی پھرتی یاد گار ہوا کرتاتھا ۔ مگر افسوس کہ اب ایسا ماحول بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ علمِ دین سے محرومی اور اچھی صحبت سے دوری کی بِنا پر والدین اولاد کی نہ اسلامی تربیت کررہے ہیں نہ بچّے ماں باپ کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہماری بے ادبیاں اوربَد لحاظیاں ہیں کہ جنہوں نے ہماری گھریلو اور مُعاشرتی اقدار کوبرباد کر کےرکھ دیا ہے۔

آئیے! اسلامی تعلیمات کے بارے میں جاننے اور اُن پر دل و جان سےعمل پیراہونےکی نیتِ صادقہ کیجئے تاکہ ایسا اسلامی تربیتی نظام قائم ہوسکے جس کے تحت تمام لوگ عزت کی زندگی گزار سکیں ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ،  المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی


[1] ترمذی، 3/ 369، حدیث:1927

[2] دلیل الفالحین،جزء:3، 2/213

[3] شعب الایمان،7/458، حدیث:10981

[4] المطالب العالیہ،7/570،حدیث:3143

[5] فیض القدیر،5/495، تحت الحدیث:7693 ماخوذاً

[6] شعب الایمان،5/99،حدیث:5935

[7] احیاء العلوم،2/245

[8] فتاویٰ ر ضویہ ،24/453ملخّصاً

[9] تاریخ بغداد ،10/262


Share

Articles

Comments


Security Code