کوئی بیماری لا علاج نہیں

حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہسے روایت  ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا:مَا اَنْزَلَ اللہُ دَآءً  اِلَّا اَنْزَلَ لَہٗ شِفَآءً۔ترجمہ:اللہ تعالٰی نے کوئی ایسی بیماری نازل  نہیں فرمائی  جس کی  شفا نہ  اُتاری ہو۔ (بخاری،ج4،ص16، حدیث  : 5678)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حدیث پاک میں’’ نازل کرنے‘‘ سے مراد مرض اور اس سے شفا کے اسباب کا پیدا کرنا ہے یا ایسے فرشتوں کا نازل کرنا ہے جن کے سپرد مریض اور دوا کو کیا جاتا ہے۔اس حدیثِ پاک میں بڑھاپے  اور موت کا اِسْتِثْنَا نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ حقیقت میں بیماریوں میں شمار ہی نہیں ہوتے۔( عمدۃ القاری،ج 14،ص668۔حاشیۃ السندی علی البخاری ، ج4،ص16، تحت الحدیث:5678) اللہ  ربُّ العالمین  بڑا رحیم و کریم  ہے  اگر وہ  اپنے بندوں کو  مختلف بیماریوں میں مبتلا فرماتا ہے تو اُن تکالیف پراُنہیں جزا بھی دیتا ہے یا اُن کے گناہوں کا کفارہ بناتا ہے  اور اس کے ساتھ  ساتھ اس نے اپنی رحمتِ کاملہ سے اِن تمام بیماریوں سے  شفا کے طریقے  اور دوا ئیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ مرض  اور علاج:اَطِبَّا کے نزدیک جسمِ انسانی کااپنی طبعی  حالت سے نکل جانا”مرض“ کہلاتا ہے،اس کو  اپنی اصلی حالت پر لوٹانا  ’’علاج‘‘  کہلاتا ہے اور جسم کو اپنی  طبعی حالت پر قائم رکھنا ’’حفظِ صحت‘‘ ہے  جو غذا اور جسم سے متعلق دوسری  چیزوں کی دُرُستی کے بغیر ممکن نہیں اور اگر جسم کی حالت بگڑ جائے تو مرض کو ختم کرنے  والی مُوَافِق دوا کے ذریعے  ہی  اسکو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ (شرح النووی على المسلم، جز14،ج 7،ص192) جیسا  کہ  حدیث  پاک میں ہے: لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَّأَ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ  یعنی ہر بیماری کی دوا ہے، جب  دوا بیماری  کے مُوَافِق (مطابق)ہو جاتی ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ شفاعطافرمادیتا ہے۔(مسلم،ص933، حدیث:5741) کیا کوئی مرض لا  علاج نہیں؟عام  طور پر ڈاکٹرز بہت سے اَمْراض کے متعلق  کہہ دیتے  ہیں کہ یہ مرض لا علاج  ہے، لیکن مذکورہ بالا حدیثِ پاک سے یہ  بات واضح ہوگئی  کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ نے ہر مرض کی دوا  پیدا فرمائی ہے پس جب مریض کو مرض کے مُوَافِق (مطابق) دوا  مُیَسَّر آجائے گی تو اللہ  عَزَّ     وَجَلَّ کے اِذن سے شفا بھی  نصیب  ہو جائے گی اور جو بہت سے لوگ علاج کے باوجود صحت مند نہیں ہوتے  اس کی وجہ  یہ نہیں کہ اس مرض کی دوا نہیں ہے بلکہ وہ اس مرض کی دوا اور طریقۂ علاج  سے ناواقفِیَّت کی بنا پر صحت مند نہیں ہوتے۔(شرح النووی على المسلم،جز 14،ج 7،ص192) اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ علاج میں حرام چیزوں  سے اِجْتِناب کیا جائے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: إِنَّ اللهَ خَلَقَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ فَتَدَاوَوْا وَلَا تَتَدَاوَوْابِحَرَامٍ۔(معجم الکبیر،ج24،ص254،حدیث:649)بے شکاللہ تعالٰی نے بیماری اور دوا کو پیدا فرمایا ہے  پس علاج کرو مگر حرام سے علاج نہ کرو۔کیا علاج کروانا  توکل علی اللہ (یعنیاللہ پر بھروسہ کرنے)کے خلاف ہے؟علامہ مُلَّا علی  قاری علیہِ رحمۃُ اللہِ البارِی فرماتے ہیں: علاج کے لئے دوا   وغیرہ کے اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہےجیسا کہ بھوک مٹانے کے لئے کھانا کھایااور پیاس   بجھانے کے لئے پانی پیا جاتا ہے، امام حارث مُحَاسِبِی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَوی فرماتے ہیں کہ توکل کرنے والے کو چاہئے کہ سیّدُالمُتَوَکِّلِیْن صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی اقتدا (اتباع)میں علاج کروائے۔(مرقاة المفاتیح،ج 8،ص289، تحت الحدیث:4515)


Share