پسینہ خشک ہونے سے پہلے

شرح حدیث رسول

پسینہ خشک ہونے سے پہلے

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2025

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اَعْطُوا الْاَجِيرَ اَجْرَهٗ قَبْلَ اَنْ يَجِفَّ عَرَقُهٗ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر    رضی اللہُ عنہما   سے روایت ہے کہ  رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: اجیرکو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔([1])

مذکورہ حدیثِ پاک میں نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اجیروں کے حقِ اجرت کی جلد ادائیگی کی تاکید فرمائی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک حسین پہلو حقوق و فرائض کا توازن بھی ہے، اسلام جہاں ہمیں ہمارے حقوق کے بارے میں بتاتا ہے وہیں ہمارے فرائض سے بھی آگاہ کرتا ہے، مثال کے طور پر اگر بطورِ اولاد ہمارے حقوق والدین پر لازم ہیں تو ان کے بھی حقوق ہیں جن کی ادائیگی ہم پر ضروری ہے۔ یہی معاملہ مُستاجِر(اجرت پر کام کروانے والے) اور اَجِیر (اجرت پر کام کرنے والے) کا ہے، دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں، مستاجر کا ایک حق یہ ہے کہ اسے کام مکمل ملے اور اجیر کا حق یہ ہے کہ کام مکمل کرنے کے بعد اسے اجرت دے دی جائے۔

اجیر سے مراد؟

”اَجیر“ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اُجرت پر کام کرے، چاہے اس کی محنت جسمانی ہو یا ذہنی! جسمانی محنت کرنے والے جیسے مزدور، مستری، مالی یا پلمبر وغیرہ اور ذہنی محنت کرنے والے جیسے آفس کلرک، کمپیوٹر آپریٹر، سافٹ وئیر انجینئر، لفٹ آپریٹر، ریسیپشنٹ، ڈاکٹر، سرجن، ٹیچر، رائٹر، ایڈیٹر یا پراجیکٹ مینجر وغیرہ، جب یہ کام مکمل کردیں تو ان سب کی اجرت جلد ادا کردی جائے۔(اس کی تفصیلات کے لئے فقہی کتب کا مطالعہ کیجئے)

”پسینہ خشک ہونے سے پہلے“ کی وضاحت

اجیر کے پسینے کا ذکر کرکے محنت کی قدر و قیمت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ مزدوری دینے میں ٹال مٹول نہ کی جائے کہ کل آنا، شام کو آنا وغیرہ، جس وقت دینے کا معاہدہ ہو (روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ) اسی وقت دے دی جائے خواہ اس کے جسم پر پسینہ نہ ہو یا آ کر خشک ہو چکا ہو۔ علّامہ مناوی   رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں: عام طور پر تاجر جب مال حوالے کرتے ہیں تو ساتھ ہی قیمت وصول کرتے ہیں، تو یہ مزدور تو اجرت ملنے کا زیادہ حق دار ہے، کیونکہ یہ (اجرت) اس کی محنت کابدلہ ہے نہ کہ کسی مال یا چیز کا، لہٰذا اس کی مزدوری کو روکنا یا تاخیر کرنا، جبکہ اجرت دینے کی طاقت موجود ہو، ناجائز اور حرام ہے۔ یہ جو فرمایا گیا:”پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو“ یہ دراصل اس بات کا کنایہ (اشارہ) ہے کہ جیسے ہی کام مکمل ہو اور مزدور اپنا حق مانگے، تو فوراً ادا کر دیا جائے، چاہے اسے پسینہ آیاہو یا بہہ کر خشک ہو چکا ہو۔([2])

اجیر کی حق تلفی نہ کیجئے

اجرت میں بغیر شرعی اجازت تاخیرکرنا مزدور کی حق تلفی اور ظلم ہے،قراٰنِ پاک میں ظالموں کے بارےمیں فرمایا:

وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ(۷۱)

ترجَمۂ کنزُالایمان:ستم گاروں کا کوئی مددگار نہیں۔([3])

اسی طرح رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بھی ظلم کا انجام بیان فرمایا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریاں ہے۔([4])

یہ اخلاقی تقاضا بھی ہے کہ جب اجیر اپنا کام پورا کر لے تو اس کی اجرت میں تاخیر یا بلاوجہ کٹوتیاں نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس نے ہمارا کام پورا کردیا اب ہم پوری اجرت اس کے حوالے کردیں۔

کام پورا لے کر مزدوری نہ دینے والے کا انجام

رسولُ ا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: ا پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِمقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔([5])

یعنی سخت سزا دوں گا جیسے کوئی دشمن اپنے دشمن پر قابو پائے تو اس کی کوئی رعایت نہیں کرتا، ایسے ہی میں ان کی رعایت و رحم نہ کروں گا لہٰذا یہ حدیث واضح ہے۔([6])

اجیر تنگ کرنےکے لئے کام ادھوراچھوڑ دے تو؟

اگر مزدور ہی بیچ میں کام چھوڑ دے شرارۃً تو وہ مزدوری کا حقدارنہیں، نائی آدھی حجامت کرکے انکار کردے تو بجائے اجرت کے سزا کا مستحق ہوگا، کام پورا کرنے پر اجرت کا مستحق ہوگا، روزانہ اجرت دی جائے یا ماہوار، جو طے ہوگیا ہو۔([7])

اجیروں کی پریشانیاں

اجیروں کو اجرت نہ ملنے یا تاخیر سے ملنے کے مسائل پر کئی تحقیقات، رپورٹس اور خبریں موجود ہیں۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں %40 سے زائد مزدوروں کو وقت پر اجرت نہیں ملتی۔

*گھر کے اخراجات (خوراک، علاج، بچوں کی تعلیم) پورے نہیں ہو پاتے *قرض لینا پڑتا ہے یا سود خوروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں *بنیادی ضروریات جیسے رہائش، بجلی اور پانی کا بل ادا نہیں ہو پاتا *تناؤ، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں *گھریلو جھگڑوں اور خاندانی تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے *خود اعتمادی کم ہو جاتی ہے اور مایوسی پھیلتی ہے *مناسب علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں*کم غذائیت اور تھکاوٹ کی وجہ سے صحت خراب ہوتی ہے *ذہنی دباؤ کی وجہ سے بلڈ پریشر، دل کے امراض اور دیگر بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں*معاشرے میں عزت کم ہو جاتی ہے *خاندان اور دوستوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے *اگر اجرت کےلئے اصرار کریں توانہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])ابن ماجہ،3/162،حدیث:2443

([2])فیض القدیر، 1/718، تحت الحدیث:1164

([3])پ17،حج:71

([4])مسلم،ص1069، حدیث:6576

([5])بخاری، 2/52،حدیث:2227

([6])مراٰۃ المناجیح،4/334

([7])مراٰۃ المناجیح،4/335۔


Share