اپنی جان، مال اور آل کو بد دعا نہ دو

شرح حدیث رسول

اپنی جان، مال اور آل کو بددعا نہ دو!

*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025

مسلم شریف میں ہے: محمد عربی، مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

لَا تَدْعُوا عَلَى اَنْفُسِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلَى اَوْلَادِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلَى اَمْوَالِكُمْ لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْاَلُ فِيهَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ

ترجمہ: اپنی جانوں پر بَددُعا نہ کرو اور اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو اور اپنے اموال پر بددعا نہ کرو کہ اتفاقاً یہ وہ گھڑی ہوجس میں تم رب تعالیٰ سے جو مانگو وہ تمہیں دے دے۔([i])

شرحِ حدیث

یہ نصیحت آموز کلمات ایک طویل اورصحیح حدیث شریف کا جزو ہے۔ اس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ایک انصاری کے اونٹ نے سرکشی کی تو اس نے اونٹ پر لعنت بھیجی، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے اونٹ سے اتر جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: فَلَا تَصْحَبْنَا بِمَلْعُوْنٍ اور ہمارے ساتھ ”ملعون“ جانور کو نہ رکھو۔ پھراپنی جان،اولاداورمال وغیرہ پر بددعا سے منع فرمایا جس کے الفاظ شروع میں نقل کئے گئے ہیں۔ یوں انصاری کا اپنے اونٹ پر لعنت کرنا اس فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سبب بنا۔([ii])

دو چیزوں کی ممانعت

قارئین! نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو حسنِ اخلاق،اچھی بات کرنے اور بُری بات سے بچنے کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بنیادی طور پر دو چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے، (1)جانوروں پر لعنت کرنا (2)اپنی جان،مال،آل وغیرہ کو بددعا دینا۔

لعنت کرنے کا مطلب اور شرعی حکم

لعنت کا معنی ہے: رحمتِ الٰہی سے دوری کی دعا کرنا۔([iii]) امامِ اہلِ سنّت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی مسلمان پر لعنت نہ کرے اور اسے مردود و ملعون نہ کہے اور جس کافر کا کفر پر مرنا یقینی نہیں اس پر بھی نام لے کر لعنت نہ کرے، یہاں تک کہ بعض علماء کے نزدیک مستحقِ لعنت پر بھی لعنت نہ کہے، یوں ہی مچھر اور ہوا اور جمادات و حیوانات پر بھی لعنت ممنوع ہے۔([iv])

اپنی جان مال اور آل وغیرہ کو بددعادینا

مطلب یہ ہے کہ غصّے یا جوش میں اپنی جان، اولاد کو نہ کوسو اور اپنے اموال (جانور، غلام، جائیداد، زمین وغیرہ) کی تباہی و ہلاکت کی دعا نہ کر بیٹھو کہ کہیں یہ قبولیت کی گھڑی نہ ہو۔ امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی جانور پر سوار ہوتے، اگر وہ لڑکھڑاتا تو آپ اسے مارتے نہیں تھے اور نہ ہی بددعا دیتے۔([v])اس حدیث شریف میں ان لوگوں کیلئے دعوتِ عبرت ہے جو بات بات پر اپنے آپ یا اولاد کو کوسنے اور بددعاؤں کے عادی ہوتے ہیں، مثلاً: *میں کوڑھی ہو کر مروں (مَعاذَ اﷲ) *تُو ذلیل ہوجائے *تُو خوشی کو ترس جائے *تجھے سانپ کاٹے *تیرے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں *تیری گردن کٹے *تُو کتے کی موت مرے *تُو اندھا ہوجائے *تیرا ایکسیڈنٹ ہوجائے *تجھے کبھی اولاد نہ ملے *تیری اولاد بھی نافرمان نکلے *تم دانے دانے کو ترسو *ایسی فصل کو آگ لگے *تیری لاش کو کتے کھائیں *تجھے گولی لگے۔! پہلے ماں یا باپ غصے کی شدت میں لمبی چوڑی بددعائیں دیتے ہیں پھر اگر کوئی ایسا حادثہ ہوجائے تو پھر سر پکڑ کر روتے ہیں۔([vi])

کیاماں باپ کی اولاد کے لئے بددعا قبول ہوتی ہے؟

اس حوالے سے دو قسم کی حدیثیں موجود ہیں، ایک روایت ترمذی شریف میں نقل کی گئی ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: تین دعائیں بیشک مقبول ہیں:دعا مظلوم کی اور دعا مسافر کی اور باپ کا اپنی اولاد کو کوسنا۔([vii]) اور دوسری روایت دیلمی کی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کسی پیارے کی پیارے پر بددعا قبول نہ فرمائے۔([viii])

علّامہ شمسُ الدّین سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ اسے لکھ کر فرماتے ہیں: صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اولاد پر ماں باپ کی بددعا رَدّ نہیں ہوتی تو اس حدیث کو ان سے تطبیق دینی چاہئے۔

علّامہ سخاوی کی عبارت کے تحت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: دعا 2طور پر ہوتی ہے: ایک یہ کہ داعی (یعنی دعا کرنے والے) کا قلب حقیقۃً اس کا یہ ضرر(نقصان) نہیں چاہتا، یہاں تک کہ اگر (نقصان) واقع ہو تو خود سخت صدمے میں گرفتار ہو۔ جیسے: ماں باپ غصے میں اپنی اولاد کو کوس لیتے ہیں مگر دل سے اس کا مرنا یا تباہ ہونا نہیں چاہتے اور اگر ایسا ہو تو اس پر ان سے زیادہ بے چین ہونے والا کوئی نہ ہوگا۔ دیلمی کی حدیث میں اسی قسمِ بددعا کیلئے وارد کہ حضور رَءُوْفٌ الرَّحِیْم رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے اس کا مقبول نہ ہونا اللہ تعالیٰ سے مانگا۔ نظیر اس کی وہ حدیث صحیح ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے عرض کی: ”الٰہی! میں بشر ہوں بشر کی طرح غضب فرماتا ہوں تو جسے میں لعنت کروں یا بددعا دوں اسے تو اس کے حق میں کفارہ واجر وباعثِ طہارت کر۔“

دوسرے اس کے خلاف کہ داعی کا دل حقیقۃً اس سے بیزار اور اُس کے اس ضرر کا خواستْگار (امیدوار)ہے اور یہ بات ماں باپ کو مَعاذَ اللہ اسی وقت ہوگی جب اولاد اپنی شقاوت سے عقوق کو (یعنی نافرمانی وسرکشی کو) اس درجۂ حد سے گزار دے کہ ان کا دل واقعی اس کی طرف سے سیاہ ہو جائے اور اصلاً محبت نام کو نہ رہے بلکہ عداوت آ جائے۔ ماں باپ کی ایسی ہی بددعا کے لئے (نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) فرماتے ہیں کہ رَدّ نہیں ہوتی۔([ix])

قراٰنی تعلیمات

اپنی جان، مال اور آل وغیرہ کو بددعا نہ دی جائے،اس حوالے سے قراٰن پاک بھی ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ پارہ 15 میں ہے:

(وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱))

ترجمہ کنزالایمان: اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔([x])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیرخزائن العرفان میں ہے: اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے اور اپنے مال کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور غصّہ میں آ کر ان سب کو کوستا ہے اور ان کیلئے بددعائیں کرتا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ بددعا قبول کر لے تو وہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں فرماتا۔([xi])

ماں باپ کی خدمت میں اہم گزارشات

ماں باپ اپنے دل کے چین، آنکھ کے نور اور جگر کے ٹکڑے کو بددعائیں کیوں دیتےہیں؟ اس کا ایک سبب اسلامی معلومات میں کمی اور تربیت کا نہ ہونا ہے کہ ہم نے کیا دعا کرنی ہے اور کونسی نہیں کرنی۔

(1)یہ بھی معاشرتی حقیقت ہے کہ تھوڑا بہت علم رکھنے والے ماں باپ کو اپنے حقوق تو یاد آجاتے ہیں لیکن اولاد کے بھی ان پر کچھ حقوق ہوتے ہیں!یہ پتا نہیں ہوتا۔ بہرحال اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے کوسنے نہ دئیے جائیں: اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: موقع پر چشم نمائی، تنبیہ، تہدید کرے (مناسب موقع پر سمجھائے اور نصیحت کرے) مگر کوسنا (بددعا) نہ دے کہ اس کا کوسنا ان کیلئے سبب ِاصلاح نہ ہوگا بلکہ اور زیادہ اِفساد (بگاڑ) کا اندیشہ ہے۔([xii])

(2)اس عبارت کی روشنی میں غور کیجئے کہ اولاد کا بھی دل ہوتا ہے، وہ بھی احساسات رکھتے ہیں،اگر ان کا یہ ذہن بن گیا کہ میری ماں یا باپ کا مجھے بددعائیں دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں تو وہ بدگمان ہوکر مزید بگڑ سکتی ہے۔اس لئے بیٹا یا بیٹی غلطی کر بیٹھے تو درگزر کیجئے کہ وہ کم تجربہ کار اور ناسمجھ ہیں اور انہیں نرمی،محبت اور شفقت سے سمجھائیے تو وہ دل سے آپ کی بات پر عمل کرنےکے لئے تیار ہوجائیں گے۔ اِن شآءَ اللہ

(3)اولاد کی طرف سے تکلیف یا پریشانی پہنچنے پر ماں باپ کے لئے ایک مفید راستہ یہ بھی ہے غصہ کرنے کے بجائے صبر کریں اور ثوابِ آخرت کمائیں۔نیز یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر وہ بددعا اس لئے دے رہے ہیں کہ اولاد گھبرا کر بُرے کام سے باز آجائے تو یہ مقصد ان کے حق میں حسبِ حال دعائے خیر کرکے بھی حاصل ہوسکتا ہے کہ یااللہ! میری اولاد کو گناہوں سے بچا، ان کو نیک و پرہیزگار اور باادب بنا، انہیں ہمارے حقوق پہچاننے کی توفیق دے، ہماری دل آزاری کرکے صدمہ پہنچانے سے بچا، ہماری وجہ سے انہیں آخرت میں عذاب نہ دینا، انہیں اچھی صحبت نصیب فرما، انہیں محتاجی کی ذلت سے بچانا، عزت والی حلال روزی عطا فرمانا، حرام سے بچانا۔ کچھ اچھی دعائیں نافرمان اولاد کے سامنے بھی اچھی نیت سے کی جاسکتی ہیں،شاید یہ دعائیں سُن کر وہ نادم ہوں کہ میں اپنی ماں یا باپ کو کتنا ستاتا ہوں لیکن یہ پھر بھی میرے لئے خیر کی دعائیں کررہے ہیں!! یوں وہ نیکی کے راستے پر آجائے۔

(4)ماں باپ کو چاہئے کہ پہلے توکل اور تفویض کا وصف اپنائیں پھر اولاد کو سدھارنے کی تدبیریں کیجئے،اِن شآءَ اللہ آپ کی مُراد پوری ہوگی۔(توکل وتفویض کی تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”توکل“ پڑھنا مفید ہے۔)

(5)اولاد کو کوسنا تنگ دستی کا سبب بھی بن سکتا ہے، چنانچہ علّامہ زرنوجی رحمۃُ اللہِ علیہ نے تنگدستی کے 44 اَسباب میں ایک یہ بھی لکھا: اپنی اولاد کو کوسنیں دینا۔([xiii]) غور کرلیجئے کہیں آپ کی تنگ دستی کا سبب یہ تو نہیں؟

اولاد بھی سنبھل جائے

اپنے والدین کو کسی بھی طرح سے ستانے والے خبردار ہوجائیں کہ اگر ماں یا باپ میں کسی نے دکھی دل سے آپ کے خلاف بددعا کردی تو آپ کہیں کے نہ رہیں گے۔ابھی بھی وقت ہے توبہ کرکے ان سےمعافی مانگ لیجئے،ورنہ آپ کو پچھتانا پڑ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے نوجوانوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں جنہیں ماں باپ کی بددعائیں لے بیٹھیں۔مثلاً ایک نوجوان نے لکھا: جب میری امی نے مجھے یہ بددعا دی تھی کہ ”خدا کرے تو کبھی کامیاب نہ ہو“ جب سے اب تک مجھے نوکری نہیں مل رہی ہے۔ *یہ واقعہ بھی کسی نے شیئر کیا: ایک ماں اپنے بیٹے پر ناراض ہوئی تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا جا تجھے اللہ کبھی بھی بیٹے نا دے۔ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کی نعمت سے محروم رہا۔ اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو اپنے جاننے والوں میں مل جائیں گی۔

جبکہ ایسوں کی اسٹوریز بھی موجود ہیں جو اپنی خوشحالی اور سکون کو ماں باپ کی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، *ایک شخص کاکہنا ہے: میرا ایک عزیز زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، اس کا ایک بہت ہی چھوٹا سا کاروبار تھا مگر صاف ستھرا گھر، مثالی بیوی اور کھیلتے کودتے پیارے پیارے بچے۔ ایک دن میں نے حیرت سے اس کی پرسکون زندگی کا راز پوچھا تو کہنے لگا: یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے،جب میری ماں حیات تھی اور میں گھر جاتا تو جاتے ہی اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتا، وہ مجھے دعا دیتی اللہ تیرے سر کو ہمیشہ بُلند رکھے۔ لگتا ہے یہی سبب ہے کہ میں اس دعا کے طفیل آج برکتوں کے حصار میں گھرا رہتا ہوں۔ *ایک شخص نے لکھا: میں ایک ایسے کاروباری شخص کو بھی جانتا ہوں جو اس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے ایک دن خود مجھے بتایا تھا میری ساری ترقی اور مال و دولت کے پیچھے میری والدین سے محبت و عقیدت، اُن کی رضا اور دعائیں ہیں۔

کسی نے پنجابی میں شعر کہا ہے:

تُپاں دا نئی ڈر مینوں چھاواں میرے نال نیں

لوکو میری ماں دیاں دُعاواں میرے نال نیں

(یعنی مجھے دھوپ کا کیا ڈر میری ماں کا آنچل میری چھاؤں ہے، اے لوگو! میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں)

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])مسلم، ص1226، حدیث:7515

([ii])مسلم، ص1226، حدیث:7515

([iii])دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 8/73

([iv])فضائل دعا، ص188

([v])المنن الکبریٰ، ص 577

([vi])دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 3/294

([vii])ترمذی، 5/280، حدیث:3459

([viii])مسند الفردوس، 1/52، حدیث189

([ix])فضائل دعا، ص213، 214

([x])پ15، بنیٓ اسراءیل: 11

([xi])تفسیر خزائن العرفان، ص527

([xii])اولاد کے حقوق، ص25

([xiii])تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص125۔


Share