اوپر نہیں نیچے دیکھو

شرح حدیث رسول

اوپر نہیں نیچے دیکھو

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

خاتمُ النّبیین،رحمۃٌ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اِذَا نَظَرَ اَحَدُكُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ اِلٰى مَنْ هُوَ اَسْفَلَ مِنْهُ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جسے مال وخَلق میں تم پر برتری (Superiority) دی گئی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے۔([i])

شرح حدیث اس حدیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اَلْخَلْقِ سے مراد صورت ہے، اولاد، پیروکار اور زینتِ دنیا کو بھی مُراد لیا جاسکتا ہے، جبکہ مَنْ هُوَ اَسْفَلَ مِنْهُ سے مراد ہے جو دنیوی معاملات میں اس سے نیچے ہو۔([ii])

اب اس حدیثِ پاک کا معنیٰ یہ ہوا کہ جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مال، حسن وجمال، اولاد، پیروکار اور دنیاوی زیب و زینت وغیرہ میں تم سے بڑھ کر ہو تو ایسے شخص کو دیکھ لو جو ان چیزوں میں تم سے کم ہو۔

نیچے دیکھنے کے فوائد(1)نیچے اس لئے دیکھے کہ اسے اپنی کمی برداشت کرنا آسان ہو اور وہ اپنے اوپر ہونے والے انعاماتِ الٰہی پر خوش ہو اور ان پر شکر کرے۔ اس کا تعلق دنیاوی معاملات کے ساتھ ہے، رہے دینی و اُخروی اُمور تو اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تاکہ فضائل حاصل کرنے کی رغبت بڑھے۔([iii])

(2)علمائے کرام نے فرمایا کہ اس فرمانِ رسول میں (باطنی) بیماری کا علاج ہے کیونکہ جب کوئی شخص اپنے سے اوپر والے کو دیکھے گا تو وہ حسد کے اثر سے محفوظ نہیں رہے گا اور حسد کی دوا یہ ہے کہ وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے تاکہ اس کی توجہ شکرِ الٰہی کی طرف متوجہ ہو۔([iv])

(3)اگر انسان اپنے سے نیچے طبقے والوں کی طرف دیکھے تو اسے اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ بہت اچھی حالت میں ہے۔ اگر بالفرض کوئی ایسا انسان ہے جسے تمام لوگوں میں اپنے اوپر کوئی دکھائی نہیں دیتا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے سے نیچے والوں کی طرف نہ دیکھے کہ اس صورت میں یہ غرور و تکبر، خودپسندی اور فخر کرنے کے فعلِ بد میں مبتلا ہو سکتا ہے لہٰذا اس پر لازم ہے کہ یہ ہمیشہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور بالفرض اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقر و تنگدستی کا شکار ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کریم کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اسے کثرتِ مال کے ذریعے دنیا کے فتنے میں مبتلا نہیں فرمایا۔([v])

شروحات کا خلاصہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو دنیاوی نازو نعمت میں اس سے بلند پایہ ہے تو اسے ایسے شخص کو دیکھ لینا چاہئے جس سے یہ بلند پایہ ہے تاکہ بلند پایہ کو دیکھ کر اللہ کی نعمت کا کفران (ناشکری) نہ کرے بلکہ اپنے پر اللہ کی نعمتیں دنیاوی مال و متاع، خوبصورتی اور اولاد وغیرہ کو دیکھے تاکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر بجالائے اور خوش ہو، لیکن جس کا تعلق آخرت سے ہے وہاں اس کو دیکھے جو اس سے دین داری میں بلند پایہ ہے تاکہ فضائل حاصل کرنے میں راغب ہو۔([vi])

مراٰۃ المناجیح میں ہے:اس حدیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مطلب یہ ہوا کہ اگر تم کبھی ایسے شخص کو جو صحت یا دولت میں تم سے زیادہ ہو اور تم کو اس پر رنج ہو تو فورًا ایسے (شخص) کو بھی دیکھو جو صحت دولت میں تم سے کم ہے اور خدا کا شکر کرو۔ دنیاوی چیزوں میں اپنے سے نیچے کو دیکھو تاکہ تم شکر کرو اور دین کی چیزوں میں اپنے سے اوپر کو دیکھو تاکہ تم اپنی عبادات پر تکبر نہ کرو، اگر تم پنجگانہ نماز پڑھتے ہو تو انہیں دیکھو جو تہجد اور اشراق بھی پڑھتے ہیں۔([vii])

عمل کی فضیلت حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والے کو پیش ِنظر رکھا تو اللہ پاک اسے صابر اور شاکر لکھ دیتا ہے اور جس نے دین کے معاملے میں اپنے سے نیچے والے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو پیش ِنظر رکھا تو اللہ پاک اسے صابر اور شاکر نہیں لکھتا۔([viii])

غور وفکر کی تکمیل امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:اس غور و فکر کی تکمیل اس طرح ہوگی وہ دنیاوی معاملات میں ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھے اوپر والوں کی طرف نظر نہ کرے کیونکہ شیطان ہمیشہ اس کی نظر کودنیاوی معاملات میں اوپر والوں کی طرف پِھراتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ طلب ِ مال میں کوتاہی کیوں کرتے ہو مال داروں کو دیکھو کہ انہیں کیسے اچھے کھانے اور عمدہ لباس حاصل ہیں اور دینی معاملات میں شیطان اس کی نگاہ اس سے نیچے والوں کی طرف پِھراتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے نفس کو کیوں مَشَقَّت اور تکلیف میں ڈالتے ہو اور کیوں اللہ پاک سے اس قدر ڈرتے ہو فلاں شخص کو دیکھووہ تم سے زیادہ علم رکھنے کے باوجود اللہ سے نہیں ڈرتا، تمام لوگ تو عیش و عشرت میں مشغول ہیں جبکہ تم لوگوں سے ممتاز ہونا چاہتے ہو۔([ix])

حاصلِ مطالعہ اس حدیثِ رسول اور اس کی شروحات کے مطالعہ سے درج ذیل پوائنٹس حاصل ہوئے:

(1)احساسِ کمتری اور برتری کا علاج معلوم ہوا۔ مزید مستدرک میں فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مال داروں کے پاس کم جایا کرو یہ اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ پاک کی نعمت کو کم نہ سمجھو۔([x])

حضرت شبلی رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی دنیادار کو دیکھتے تو دعا کرتے: ”اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْاَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبٰى یعنی اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔“([xi])

(2)ہر انسان مال، حُسن وجمال، اولا د اور صلاحیتوں وغیرہ میں برابر نہیں ہوتا بلکہ کوئی ان چیزوں میں آپ سے بَر تر ہوگا اور کسی کے پاس یہ نعمتیں آپ سے کم ہوں گی۔ اس لئے اپنی کمی پر پریشان اور مایوس نہ ہوں اور اپنی برتری پر غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہوں۔

سُکھی رہنے کے نسخے(1)دو چیزوں کی گنتی چھوڑ دیں: (۱)اپنے دُکھ اور (۲)دوسرے کے سُکھ۔ ورنہ آپ کے دکھوں میں اضافہ ہوجائے گا (2)اپنے آرام و آسائش کا دوسروں کے زیادہ آرام و آسائش سے مقابلہ نہ کریں، اس سے بھی آپ دکھی ہو سکتے ہیں (3)جب آپ دکھی ہوں تواپنے سے بڑھ کر دکھیاروں کی حالت پر غور کرنے سے آپ کے دکھ کی شدت کم ہوجائے گی اور اسے برداشت کرنا قدرے آسان ہوجائے گا۔

میرے پاؤں تو سلامت ہیں ایک بزرگ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے دُور دَراز شہر کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ چلتے چلتے ان کے جوتے ٹُوٹ گئے اور چلنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے جوتے اُتار دئیے اور ننگے پاؤں چلنا شروع کردیا۔ ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں میں چھالے پڑگئے، لیکن جب تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی تو وہ بزرگ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر میرے پاس بھی دولت ہوتی تو میں بھی کسی سواری پر سفر کرتا اور میری یہ تکلیف دہ حالت نہ ہوتی۔ اچانک اس بزرگ کی ایک معذور شخص پر نظر پڑی جس کے پاؤں ہی نہیں تھے اور وہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا تھا۔اس بزرگ نے جب یہ منظر دیکھا تو اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے اُس خیال کی معافی مانگنے لگے اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ سُواری نہ ہونے کی وجہ سے پاؤں زخمی ہوگئے ہیں تو کیا ہوا میرے پاؤں تو سلامت ہیں کہ کھڑا بھی ہوسکتا ہوں اور چل بھی سکتا ہوں۔([xii])

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])بخاری،4/244، حدیث:6490

([ii])فتح الباری،12/275،تحت الحدیث:6490

([iii])عمدۃ القاری،15/562،تحت الحدیث6490

([iv])فتح الباری،12/275،تحت الحدیث:6490

([v])دیکھئے:مرقاۃ المفاتیح، 9 / 95، تحت الحدیث: 5242

([vi])تفہیم البخاری، 9/780

([vii])دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 7/66، 67

([viii])شعب الایمان، 4/137، حدیث:4575

([ix])احیاء العلوم، 3/300

([x])مستدرک، 5/444، حدیث:7939

([xi])دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح، 9/95،تحت الحدیث: 5242

([xii])گلستان سعدی، ص95۔


Share