طاقتور کون؟

شرح حدیث  رسول

طاقتور کون؟(Who is powerful?)

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025


بخاری شریف میں حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَيْسَ الشَّدِيْدُ بِالصُّرَعَةِ اِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهٗ عِنْدَ الْغَضَبِ ترجمہ: طاقتور پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پَچھاڑ دے بلکہ طاقتورتو وہ ہے جوغصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ ([1])

شرح حدیث اس فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں طاقت کی دو قسموں کا بیان ہے: ایک جسمانی طاقت جس کے بل بوتے پر پہلوان اپنے حریف کو زمین پر پَچھاڑ(گرا) دیتا ہے اور دوسری رُوحانی طاقت جس کی بنیاد پرایک شخص غصہ آنے پر اپنے حریف کو کچھ نہیں کہتا بلکہ اپنے بدترین دشمن نفس کو کنٹرول میں رکھتا ہے،رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رُوحانی طاقت رکھنے والے کوحقیقی طاقتور قرار دیا ہے۔([2])علامہ ابنِ بطال رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :اس حدیثِ پاک سے پتا چلا کہ نفس سے جہاد کرنا دشمن سے جہاد کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ امام حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا: نفس اور خواہشات سے جہاد کرنا۔([3])

طاقت کا اسلامی تصوردورِ جاہلیت میں طاقتورصرف اسے سمجھا جاتا تھا جو اپنے حریف کو گِرادے،اس تصورِ قوت میں مدِّ مقابل کی ذلت و رسوائی پوشیدہ ہوتی تھی۔اسلام چونکہ امن اور سلامتی کا مذہب ہے اس لئے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طاقت کا اسلامی تصور پیش کیاکہ طاقتور اور بہادروہ ہے جس کا زور اس کے اپنے نفس پر چلے نہ کہ کسی اور پر !

غصہ پینا ضروری ہےغصے کا مطلب ہے: ”ثَوَرَانُ دَمِ الْقَلْبِ اِرَادَۃَ الْاِنْتِقَام“ انتقام کے ارادے کی وجہ سے دل کے خون کاجوش میں آنا۔ ([4])تاریخ  گواہ ہے کہ جب انسان کسی سے انتقام لینے پر آتا ہے تو اپنے حریف کے جان، مال اور عزت کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی گھناؤنی کوششیں کرتا ہے۔وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے جائز ناجائز کی تمییز بھول جاتا ہے اور خودکو دوزخ کی آگ میں جلنے کا مستحق بنالیتا ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لِلنَّار ِبَابٌ لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ اِلَّا مَنْ شَفٰی غَيْظَهُ بِسَخَطِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّترجمہ: جہنم میں ایک ایسا دروازہ ہے جس سے وہی شخص داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی پر ہی ٹھنڈا ہوتاہے۔([5])غصے کا ایک نقصان یہ ہے کہ غصہ ایمان کو ایسا خراب کرتا ہے، جس طرح ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کردیتا ہے۔([6])

اس سے انکار نہیں کہ انسان کو غصہ آجاتا ہے لیکن وہ غصہ جو گناہوں پر اُبھارے اسے پی لینا بہت ضروری ہے۔ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ا پاک کی خوشنودی کے لئے بندہ نے غصہ کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اکے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں۔([7])علامہ حسین طِیبی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:غصہ پی جانے سے مراد یہ ہے کہ جو غصے کا سبب بنا اسے معاف کرتے ہوئے صبر سے کام لینا۔([8])

غصہ کیسے پیا جائے؟اب اپنے نفس پر کنٹرول کرکے غصہ پینے کے مشکل مرحلے کو کیونکر طے کیا جائے اس کے لئے ان ٹپس پر عمل کرنا مفید ہے۔

(1) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نصیحت کو یاد رکھئے:جب ہمارا نفس ہمیں غصے کے بھر پور اظہار پر اُبھارے تو اسے ہرانے کے لئے ہمیں اپنے ہادی ورہبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ سے راہنمائی لینی چاہئے۔ ایک شخص نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی: مجھے وصیت فرمائیے! حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَا تَغْضَب غصہ مت کرو۔ اس نے کئی بار یہی سوال دُہرایا،رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہر بار یہی فرمایا : لَا تَغْضَب غصہ مت کیا کرو۔([9]) علامہ خَطابی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: لَاتَغْضَبْ کے معنیٰ ہیں کہ غصے کے اسباب سے بچو اور غصے کی وجہ سے جو کیفیت ہوتی ہے اسے اپنے اوپر طاری مت کرو۔ ([10])

(2)اللہ کو یاد کیجئے:اپنے خالق ومالک عزّوجَل کی یاد، کسی بھی برائی سے بچنے کے لئےبہت مفید ہے، غصہ کے حوالے سے فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہیں کروں گا۔([11])

(3) اللہ کی پناہ مانگئے: جب کسی دشمن سے ہمارا مقابلہ ہو تو کسی کی حمایت اور مدد ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہے۔نفس جیسے دشمن سے مقابلے کے لئے اللہ پاک کی پناہ میں آجائیے۔رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو انتہائی غصہ کی حالت میں دیکھ کر ارشاد فرمایا :میں ایک ایسا کلمہ جانتاہوں اگر یہ غُصِیلا شخص اسے پڑھ لے تو وہ اس کا غصہ ختم کردے گا اور وہ کلمہ یہ ہے:”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔(اے اللہ! میں شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔)([12])

(4)دوزخ کے عذاب کا تصور کر لیجئے:غصے میں اللہ و رسول کی نافرمانی کرنے سے پہلے سوچ لیجئے کہ گناہوں کا انجام نارِ دوزخ ہے۔حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ”اے ابنِ آدم! جب تُو غصہ کرتا ہے تو اچھلتا ہے قریب ہے کہ کہیں تو ایسی چھلانگ نہ لگا بیٹھے جو تجھے جہنم میں پہنچادے۔“([13])

حضرت بکر بن عبداللہ رحمۃُ اللہِ علیہنے فرمایا: اَطْفِئُوا نَارَ الْغَضَبِ بِذِکْرِ نَارٍ یعنی غصے کی آگ کو نارِ جہنم کو یاد کرکے بجھاؤ۔([14])

(5) غصہ پینے کےفضائل وفوائد پر غور کیجئے :

جنت میں داخلہ: حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”غصہ نہ کرو تو تمہارے لئے جنت ہے۔“([15])

ایمان کا نور: حدیثِ پاک میں ہے:”جس شخص نے غُصّہ ضَبط کرلیاباوُجُود اِس کے کہ وہ غُصّہ نافِذ کرنے پرقُدرت رکھتا ہے اللہ پاک اُس کے دل کوسُکون وایمان سے بھردے گا۔“([16])

عذابِ الٰہی سے حفاظت:حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے غصے کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا۔([17])

ساری مخلوق کے سامنے عزت افزائی : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص غصہ نافذکرنے پر قادر ہونے کے باوجود اسے پی جائے، قیامت کے دن اللہ پاک تمام مخلوق کے سامنے بُلا کر اسے اختیار دے گا کہ بڑی آنکھوں والی جس حور کو چاہے پسند کرے۔([18])

(6)خاموش ہوجائیے:غصے میں زبان چلتی ہے تو تلوار کا کام کرتی ہے،اس لئے اسے قابو میں رکھئے۔رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرلینی چاہئے۔“([19])

(7)پوزیشن بدل لیجئے: فرمانِ حبیبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جب کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ چلا جائے فبہا ورنہ لیٹ جائے۔([20])

(8)وضو کرلیجئے:غصہ شیطا ن کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوتا ہے اورآگ پانی ہی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب کسی کو غصہ آجائے تو وضو کرلے۔([21])

(9) دعا مانگئے: دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، اسے نفس کے خلاف استعمال کیجئے۔ مناجاتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں سے دو یہ ہیں:

(1)اَللّٰهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، اَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْراً لِي، وَتَوَفَّنِي اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْراً لِي، وَاَسْاَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَكَلِمَةَ الْاِخْلَاصِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ترجمہ:اے اللہ! اپنے علمِ غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے صدقے مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی کو میرے لئے بہتر جانے اور وفات دے دے جب موت کو میرے لئے بہتر جانے، الٰہی میں تجھ سے تیرا خوف مانگتا ہوں ظاہر و باطن میں اور تجھ سے خوشی و ناخوشی میں سچی بات کی توفیق مانگتا ہوں۔([22])

(2)حضرت اُمِّ سلمہ  رضی اللہُ عنہا سے ارشاد فرمایا:یہ دعا مانگا کرو: ”اَللّٰھُمَّ رَبَّ مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَاَذْھِبْ غَیْظَ قَلْبِیْ وَاَجِرْنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ“ یعنی اے نبیِّ کریم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رب!میرے گناہ معاف فرما دے اور میرے دل کے غصے کو دور فرما دے اور مجھے گمراہ کر دینے والے فتنوں سے محفوظ رکھ۔([23])

(10)بُزرگانِ دین کی سیرت پڑھئے:اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنا سعادت کی بات ہے۔ان کے حالات زندگی پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں ان کے غصہ پینے کے ایسے ایسے واقعات ملیں گے کہ عقلیں حیران رہ جائیں گی۔

میں نابینا نہیں ہوں:ایک فقیر مدینہ منوره زادَهَا اللهُ شَرَ فَا تَعظِيماً کی ایک مبارک گلی میں بیٹھا تھا۔ اتفاقاً امیرُ المومنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ اُس طرف گزرے اور بے توجہی میں فقیر کے پاؤں پر پاؤں پڑ گیا۔ فقیر ناراض ہو کر چلایا: اے شخص! کیا تو اندھا ہے؟ امیر المومنین رضی اللہُ عنہ نے کمال مہربانی سے جواب دیا: بھائی! اندھا تو نہیں ہوں لیکن مجھ سے قصور ضرور ہوا ہے۔ برائے مہربانی مجھے معاف کر دو۔

یہ حکایت بیان کرنے کے بعد حضرت شیخ سعدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سُبحٰن الله! بزرگوں کا اخلاق کس قدر پاکیزہ تھا، مقابل کوئی کمزور ہوتا تھا تو اُن کے لہجے میں نرمی آ جاتی تھی، سچ ہے کہ ہر بلند مرتبہ شخص منکسر المزاج اور دوسروں کی دلجوئی کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کی مثال تو اُس درخت کی سی ہوتی ہے، جس پر جتنے زیادہ پھل آتے ہیں اُس کی شاخیں اُسی قدر جھک جاتی ہیں، جو خوش نصیب کمزوروں کے ساتھ نرمی اور مروت کا برتاؤ کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن شاداں و فرحاں ہوں گے، لیکن مغروروں کو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ([24])

اللہ پاک ہمیں غصے پر قابو پانے کی رُوحانی طاقت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])بخاری، 4/130، حدیث: 6114

([2])دیکھئے:مرقاۃ المفاتیح،8/826،تحت الحدیث:5105

([3])دیکھئے: شرح بخاری لابن بطال،9/296

([4])مفردات امام راغب،ص361

([5])شعب الایمان ، 6/320، حدیث8331

([6])شعب الایمان،6/311، حدیث:8294

([7])مسند احمد، 2/482، حدیث:6122

([8])شرح الطیبی،9/282، تحت الحدیث:5088

([9])بخاری، 4/131،حدیث:6116

([10])فتح الباری، 11/439، تحت الحدیث:6116

([11])فردوس الاخبار،2 / 137،حدیث:4476

([12])مسنداحمد،8/253، حدیث:22147

([13])احیاء علوم الدین ، 3/205

([14])شرح ابن بطال،9/297

([15])معجم اوسط، 2/20، حدیث:2353

([16])جامع صغیر،ص541،حدیث:8997

([17])شعب الایمان، 6/315، حدیث: 8311

([18])ابو داؤد،4/325، حدیث:4777

([19])مسنداحمد،1/، 515، حدیث:2136

([20])مسنداحمد ،8/80، حدیث:21406

([21])ابوداؤد،4/327،حدیث:4784

([22])دیکھئے:نسائی،ص224، حدیث:1303

([23])دیکھئے:مسنداحمد، 10/193،حدیث:26638

([24])بوستان سعدی،ص 149


Share