رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گواہی اور مشاہدہ

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 24 )

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گواہی اور مشاہدہ

*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2023

گذشتہ مضمون میں دو فرامین مبارکہ  ذکر کئے گئے تھے :

 * اَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الحَوْضِ یعنی میں حوض  ( کوثر )  پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔[1]

 * اَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ یعنی میں تمہارا گواہ ہوں گا۔[2]

ان فرامینِ مبارکہ میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو مبارک اوصاف ” فَرَط  “ اور ” شَهِيدٌ “ کا بیان ہے۔

وصفِ مبارک  ” فَرَط  “ کے تحت کچھ تفصیل بیان ہوگئی تھی۔ آئیے وصفِ مبارک  ” فَرَط  “ کے تحت  مزید ایک نکتہ اور وصفِ عظیم ” شَهِيدٌ “ کے تحت کچھ نکات ملاحظہ کیجئے۔

دنیا سے رخصت ہونے کا اشارہ اور حشر میں ملنے کا وعدہ فرمانِ مبارک ” اَنَا فَرَطُكُمْ یعنی میں تمہارے آگے جانے والا ہوں “ میں اس جانب اشارہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحابِ کرام سے رخصت ہونے والے ہیں۔ یہ ایسی بات تھی کہ یقینی طور پر عُشّاق غمگین ہوجاتے ، لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عشاق کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ” اِنَّ مَوْعِدَكُمُ الحَوْضُ یعنی تمہارے ملنے کی جگہ حوض ہے۔ “  [3]

اسمائے الٰہیہ میں سے عطائے اسما محترم قارئین ! آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ کریم کے کئی مبارک نام ایسے ہیں جو ربّ العزّت نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا فرمائے ہیں جیسے رَءُوف ، رحیم ، حکیم ، عادل ، صادق ، نور ، ھادی وغیرہ۔ رئیسُ المتکلمین مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہ علیہ نے 67اسمائے مبارکہ لکھے ہیں جو اللہ کریم نے اپنے ناموں میں سے رسولِ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا فرمائے ہیں۔[4]

اسی طرح ” شہید “ بھی اللہ ربّ العزّت کا اسمِ مبارک ہے جو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا ہوا۔

شہید کے معنیٰ لغت میں ” شہید “ کے معنیٰ ہیں گواہ ، حاضر و ناظر وغیرہ۔مشہور عربی لغت لسانُ العرب سمیت کئی لغات میں لکھا ہے کہ اَلشَّهيدُ الَّذِي لَا يَغيب عَنْ عِلْمهٖ شَيْءٌ یعنی شہید وہ ہے جس کے علم سے کوئی چیز غائب نہ ہو۔[5]

 ” گواہ “ اور ” گواہی “ پر نہایت نفیس کلام حکیمُ الاُمّت ، عظیم محدّث مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے  ” گواہ “ ہونے کے عنوان پر بہت ہی عشق بھرا کلام فرمایا ہے ، اس کلام کی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں پیش کیا جاتاہے :

 گواہ میں بہت صفات ہوتی ہیں مگر تین صفات لازم ہیں :

 ( 1 ) گواہ گواہی حاصل کرتے وقت واردات کے موقع پر حاضر ہو کر مشاہدہ کرے اور گواہی دیتے وقت حاکم کے روبرو حاضر ہو ، اسی لئے اسے شاہد یا شہید کہتے ہیں یعنی حاضر۔

 ( 2 ) مدعِی کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ گواہ کامیاب ہو ، تاکہ مقدمہ کامیاب ہو ، مُدّعا عَلیہ گواہ کے ناکام کرنے کی کوشش کر تا ہے ، وہ ہی گواہ پر جرح کر تا ہے ، وہ ہی گواہ کے علم پر اعتراض کر تا ہے اور کہتا ہے کہ گواہ بے خبر ہے۔

  ( 3 ) گواہ پر اعتراض در پرده مُدّعی پر اعتراض ہے ، اسی لئے مُدّعا علیہ ، گواہ کا دشمن ہو تا ہے ، نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم دنیا میں خلق کے سامنے خالق کے ، جنت و دوزخ کے اور تمام غیبی چیزوں کے گواہ ہیں۔ لہٰذا دنیا میں تشریف آوری سے پہلے خالق کے قرب خاص میں رہ کر تمام چیزوں کا مشاہدہ فرما کر یہاں تشریف لائے اور آخرت میں خالق کے سامنے مخلوق کے گواہ ہوں گے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ہر مخلوق کے ہرحال سے باخبر ہوں ، ورنہ گواہی کیسی ؟  نیز آج جو حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے علم پر اعتراض کر رہے ہیں ، سمجھ لو کہ حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کی گواہی ان کے خلاف ہونے والی ہے ، اور یہ لوگ مُدّعا عَلیہ ہیں۔ کیونکہ گواہ کے علم کی تنقیص وہ کرے گا جس کے خلاف گواہی ہو۔

نیز حضور علیہ السّلام کے علم اور کمالات کی مخالفت در پردہ رب تعالیٰ کی مخالفت ہے ، کیونکہ حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام رب تعالیٰ کے گواہ ہیں۔

 خیال رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی گواہی چار طرح کی ہے ، خالق کے گواہ مخلوق کے سامنے ، مخلوق کے گواہ خالق کے سامنے ، خالق کے گواہ خالق کے پاس ، مخلوق کے گواہ مخلوق کے سامنے ، جس کے جنتی ہونے کی حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام گواہی دیں ، وہ یقینا جنتی ہے ، جسے اچھا کہہ دیں ، وہ اچھا ہے جسے برا کہہ دیں وہ برا ہے۔ جس چیز کو حلال فرمادیں وہ حلال ہے جسے حرام کہہ دیں وہ حرام۔ کیونکہ گواہ مطلق ہیں۔[6]

شہید کے ایک معنیٰ ” حاضر و ناظر “ شہید کے ایک معنیٰ ” حاضر اور موجود “ بھی ہیں اس کے تحت حکیمُ الاُمّت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 حاضر کے معنی بھی ہو سکتے ہیں ، یعنی آپ عالَم کے ذرہ ذرہ میں حاضر و ناظر ہیں۔

یہاں اتنا سمجھ لو کہ آج حکیم یہ کہتے ہیں کہ دوا کی طاقت مرض سے زیا دہ ہونا چاہیئے ، تاکہ مرض کو دبا سکے ورنہ دوا خود مرض سے دب جائے گی ، شیطان بیماری ہے اور نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم علاج ، جب شیطان کو یہ قوت دی گئی ہے کہ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- [7]   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  کہ وہ اور اس کی ذریت تم سب کو ہر وقت دیکھتے ہیں ، اور شیطان سارے عالم پر نگاہ رکھتا ہے ، کہ جہاں کسی نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس نے آکر بہکایا۔ اب حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کو بالکل بے خبر رکھا جائے تو رب تعالیٰ پر اعتراض ہو گا کہ اس نے بیماری قوی پیدا کی دوا کمزور۔لہٰذا ضروری ہے کہ حضور کو ہدایت دینے کے لئے ہر وقت ہر ایک کی خبر ہو۔[8]

میں تمہارے پاس ہی ہوں : رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حاضر و ناظر ہونے کے حوالے سے حدیثِ پاک ” اَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ “ کے تحت عظیم محدث امام شہابُ الدّین قَسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ کے فرمائے گئے کلمات ملاحظہ کیجئے : یعنی میں تمہارے اعمال پر گواہی دینے والا ہوں ، گویا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے امتیوں کے ساتھ ہی جلوہ فرما ہیں ، ان سے آگے نہیں گئے بلکہ ان کے اعمال ملاحظہ فرمانے کے لئے باقی ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ظاہری حیات اور دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دونوں حالتوں میں اپنے امتیوں کے دنیا و آخرت کے معاملات كے نگہبان ہیں۔[9]

 ” اَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ “ فرمانے میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ میں تمہارا حوض پر منتظر و منتظم ہوں گا لیکن تمہارے اعمال بھی دیکھنے والا ہوں لہٰذا حوضِ کوثر سے دور کرنے والے اعمال نہ کرنا۔ جیسا کہ امام شہاب الدین قسطلانی نے شرح بخاری میں نقل فرمایا۔[10]

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشاہدات : شہید کے حروفِ اصلیہ ” ش ہ د “ ہیں ، باب مُفاعلہ سے اس کا مصدر ” مشاہدہ  “ بنتا ہے۔ حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشاہدہ کی بھی کیا ہی شان ہے چنانچہ شیخِ محقق شیخ عبدالحق محدِّث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحق میں 6 جِہات  ( Six Directions یعنی دائیں بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے )  ایک جہت کے حکم میں کردی گئی ہیں ( کہ آپ ایک ہی وقت میں تمام جہات کا مشاہدہ فرماتے ہیں ) ۔[11]

اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مشاہدہ صرف اپنے قریب قریب نہیں تھا  بلکہ ہزاروں لاکھوں میل دور تک بھی مشاہدہ فرمالیتے۔ جیسا کہ  مدینۂ طیبہ سے ایک ہزار کلومیڑ سے بھی زیادہ دوری پر  ہونے والی  جنگِ موتہ  کا منظر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسجدِ نبوی شریف میں  بیان فرمادیا چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرات زید ، جعفر اور اِبنِ رواحہ  رضی اللہ عنہم  کی شہادت کی  خبر  آنے سے پہلے ہی لوگوں کو  فرمایا  کہ جھنڈا زید نے لیا ، وہ شہید ہوگئے ، پھر جعفر نے لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے ، پھر اِبنِ رواحہ نے لیا وہ بھی شہید ہوگئے ،  حتّٰی کہ جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لیا یعنی خالد بن ولید نے حتّی کہ اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح دی ، یہ فرماتے وقت آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔[12]

كبھی نماز کی حالت میں جنّت میں انگوروں کے خوشوں تک ہاتھ پہنچ جائے اور جہنم کو بھی ملاحظہ فرمالیں جیسا کہ بخاری شریف میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ايك دن   سورج  گرہن  کی نماز پڑھائی تو بعدِ نمازلوگوں نےعرض کیا : یارسولَ اللہ !  ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی اس جگہ میں کچھ لیا پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے ، فرمایا میں نے جنت ملاحظہ کی تو اس سے خوشہ لینا چاہا اگر لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک کھاتے رہتے اورمیں نے آگ دیکھی تو آج کی طرح گھبراہٹ والا منظرکبھی نہ دیکھا۔[13]

اسی طرح   آپ نے پوری دنیا کا یوں مشاہدہ فرمالیا کہ جیسے کوئی اپنی ہتھیلی کو دیکھ لیتاہے۔[14]

اَنَا فَرَطُكُمْ والی طویل روایت میں ” اِنِّي وَاللَّهِ لَاَنْظُرُ اِلَى حَوْضِي الْآنَ “ کے الفاظ بھی ہیں یعنی اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ اس سے بھی آپ کے مشاہدہ کی طاقت  واضح ہوتی ہے کہ زمین پر ہوتے ہوئے حوضِ کوثر کو دیکھ لیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حوضِ کوثر کوئی خیالی یا تصوراتی بیان نہیں بلکہ یہ حقیقتاً موجود ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے ، جو اس کا انکار کرے وہ فاسِق و بدعتی ہے۔[15]حَوضِ کوثر کے متعلق احادیث 50سے زائد صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے مروی ہیں۔[16]

اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں کہ ایک تو صفحات کا دامن تنگ ہے اور دوسرا ہماری اتنی حیثیت ہی نہیں کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت کا احاطہ کرسکیں۔ اللہ ربّ العزّت ہمیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچّی محبت نصیب فرمائے۔   اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] بخاری ، 4 / 270 ، حدیث : 6589

[2] بخاری ، 3 / 45 ، حدیث : 4085

[3] بخاری ، 3 / 33 ، حدیث : 4042

[4] سرورالقلوب فی ذکرالمحبوب ، ص318

[5] لسان العرب ، 2 / 2107

[6] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص182

[7] ترجمہ کنزالایمان : بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔ ( پ8 ، الاعراف : 27 )

[8] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص183

[9] ارشاد الساری ، 3 / 485 ، تحت الحدیث : 1344

[10] ارشاد الساری ، 13 / 688 ، تحت الحدیث : 6590

[11] مدارج النبوۃ ، 1 / 7

[12] بخاری ، 3 / 96 ، حدیث : 4262 ، مسند احمد ، 37 / 257 ، حدیث : 22566

[13] بخاری ، 3 / 463 ، حدیث : 5197

[14] مجمع الزوائد ، 8 / 510 ، حدیث : 14067

[15] شرح الصاوی علیٰ جوھرۃ التوحید ، ص398 ، تحفۃ المرید ، ص442

[16] البدور السافرۃ ، ص241۔


Share

Articles

Comments


Security Code