Book Name:Seerat e Sayyiduna Zubair bin awam
آخرِ کاراہلِ مکّہ کے ظُلم و سِتَم جب حَد سے بڑھ گئے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مُسلمانوں کو حَبْشَہ کی طرف ہِجْرَت کا اِذْن دیا۔ جب اہلِ مکّہ کے سَتائے ہوئے ان مُسلمانوں کا قافلہ سُوئے حَبْشَہ رَوانہ ہوا تو ان میں سب سے کم عُمر مُہَاجِر حَضْرتِ سیِّدُنا زُبَیْر بِن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس موقع پربھی بڑی ہی دِلیری کا مُظَاہَرَہ کیا۔ چنانچہ، اُمُّ الْمُؤمنین حَضْرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حَبْشَہ ہِجْرَت کرنے والے تمام مسلمان امْن و آشتی سے رہ رہے تھے کہ اچانک حَبْشَہ کے ایک شخص نے حَضْرتِ نَجَاشِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خِلاف عَلَمِ بَغَاوت بلند کر دیا، جس کا انہیں اس قَدر دُکھ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا اور انہیں یہ خوف دامن گِیْر ہوا کہ اگر وہ شخص حَضْرتِ نَجَاشِیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہپر غالب آ گیا تو ممکن ہے کہ مُسلمانوں کی پاسداری نہ کرے۔چُنانچہ جب حَضْرتِ نَجَاشِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُس باغی کی سَرکُوبی کے لیے روانہ ہوئے اور دَریائے نیل کے دوسرے کنارے پر جہاں اس باغی سے آمنا سامنا ہونا مُتَوقّع تھا، جا ٹھہرے ،تو صحابَۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے آپس میں مَشْورہ کیا کہ دریا کی دوسری جانب جاکر کسی شخص کو وہاں کے حالات مَعْلُوم کر کے آنا چاہیے۔چُنانچہ
حَضْرتِ سیِّدُنا زُبَیْر بِن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو اُس وَقْت تمام مُہَاجِرِیْن میں سب سے کم عُمر تھے،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خُود کو اس خدمت کے لیے پیش کرتے ہوئے عرض کی: اس خدمت کی بَجاآوَری کی سَعَادَت مجھے سونپی جائے۔ تو سب ان کی کم عُمری پر مُتَعَجِّب ہوئے مگر ان کے جَذبے کو سراہا اور آخرکار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اِصْرار پرانہیں بھیجنے کیلئے رضا مند ہو گئے۔ حَضْرتِ سیِّدُنا زُبَیْر بِن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بحفاظت دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچانے کے لیے یہ ترکیب