Book Name:Seerat e Sayyiduna Zubair bin awam
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ حَضْرتِ سَیِّدُنا زُبَیْر بن عوّامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کیساسُنَّتوں بھرا حُلْیَہ رکھتے تھے کہ مُبَارَک داڑھی رکھنے کے ساتھ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سُنَّت کے مُطَابِق زُلفیں بھی تھیں۔ جی ہاں ! اتنی مِقْدار میں زُلفیں رکھنا کہ شانوں کو چُھونے لگیں یہ بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنّت کے عین مُوَافق ہے۔شیخِ طریقت،اَمِیْرِاہلسُنَّت،بانیِ دعوتِ اسلامی، حَضْرتِ علّامہ مَوْلَانا ابُو بلا ل محمدالیاس عطّار قادرِی رَضَوی ضِیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے 40 صفحات پر مشتمل رسالے ”163مَدَنی پھول “ کے صفحہ 15 پر تحریر فرماتے ہیں:خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن ،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُبَارَک زُلفیں کبھی نِصْف (یعنی آدھے)کان مُبارَک تک توکبھی کان مُبارَک کی لَو تک اور بعض اَوْقات بڑھ جاتیں تو مُبَارَک شانوں یعنی کندھوں کوجُھوم جُھوم کر چُومنے لگتیں (الشمائل المحمدیۃ للترمذی ص۳۴،۳۵،۱۸)ہمیں چاہئے کہ موقع بہ موقع تینوں سُنَّتیں ادا کریں،یعنی کبھی آدھے کان تک تو کبھی پورے کان تک تو کبھی کندھوں تک زُلفیں رکھیں۔کندھوں کو چُھونے کی حد تک زُلفیں بڑھانے والی سُنَّت کی اَدائیگی عُمُوماً نَفْس پرزِیادہ شاق ( یعنی بھاری) ہوتی ہے،مگر زِندگی میں ایک آدھ بارتو ہر ایک کویہ سُنَّت ادا کرہی لینی چاہئے ، اَلبتہ یہ خیال رکھنا ضَروری ہے کہ بال کندھوں سے نیچے نہ ہونے پائیں، پانی سے اچّھی طرح بھیگ جانے کے بعد زُلفوں کی دَرازی(یعنی لَمبائی) خُوب نُمایاں ہو جاتی ہے، لہٰذا جن دنوں بڑھائیں ان دِنوں غُسل کے بعدکنگھی کرکے غور سے دیکھ لیا کریں کہ بال کہیں کندھوں سے نیچے تو نہیں جا رہے۔
میرے آقااعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: عورَتوں کی طرح کندھوں سے نیچے بال رکھنا مَرد کےلیے حرام ہے(تسہیلاً فتاوٰی رضو یہ ج۲۱ص۶۰۰)صَدْرُ الشریعہ، بَدْرُالطَّریقہ حَضْرتِ علّامہ مَوْلانا مُفْتی محمد اَمْجِد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں:مرد کویہ جائز نہیں کہ عورَتوں کی طرح بال بڑھائے، بعض