Book Name:Seerat e Sayyiduna Zubair bin awam
آتا اسے راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خرچ کرنے کی فکر میں لگ جاتے،منقول ہے کہ حَضْرتِ سَیِّدُنا زُبَیْر بن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہزار غُلام خَراج(زمین کا محصول/مالگزاری)لانے پرمَعْمُور تھے۔ اور اس خَراج میں سے کوئی بھی چیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے گھر میں نہ لے جاتے بلکہ سب کچھ صَدَقہ فرمادیتے۔(تاریخِ دمشق،ج۱۸،ص۳۹۹)
ضرورت سے زیادہ مال و دَولت کا نہیں طالب
رہے بس آپ کی نَظْرِ عِنَایَت یَا رَسُوْلَ اللہ
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی جتنا ہوسکے، راہِ خُدا میں خرچ کرنے میں حصہ لیں۔ یاد رکھیے ! کہ راہِ خدا میں مال دیتے وقت مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اِضَافہ ہی ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں بھی یہی مَضْمُون مَوْجُود ہے چنانچہ
سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشاد فرمایا: مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِّنْ مَّالٍ۔یعنی صَدَقَہ مال میں کمی نہیں کرتا۔ (مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع،ص۱۳۹۷، حديث: ۶۹ / ۲۵۸۸،از صدقے کا انعام،ص۱۳) اور حدیثِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حَضْرتِ سَیِّدُنا زُبَیْر بن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یقینِ کامل تھا۔ ایک بار حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپناایک گھر 6 لاکھ میں فروخت کیا،تو آپ سے عرض کی گئی: ”اے ابُو عَبْدُاللہ!آپ کو تو نقصان ہو گیا۔“ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہرگز نہیں، خُدا کی قسم! تم جان لوگے کہ میں نے نقصان نہیں اُٹھایا،کیونکہ میں نے یہ مال راہِ خُدا میں دے دیا ہے۔(عمدۃ القاری کتاب الخمس،باب برکۃ الغازی،ج۱۰، ص ۴۶۴، حضرت سیدنازبیر بن عوام، ص ۵۲)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری مغفرت ہو۔