Book Name:Yazed ka Dard Naak Anjaam
بیان اعتقاد اہل السنۃ، ص۲۲۱ملخصاً) پھریہ شریر لشکر،مَکَّۂ مُکَرَّمَہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں امِیْرِ لشکر مرگیا اور دُوسراشخص اُس کا قائم مقام کِیا گیا۔ مَکَّۂ مُعَظَّمَہ (زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً )پہنچ کر اُن بے دِینوں نے مِنْجَنِیْق (مِنْجَنِیْق پتّھر پھینکنے کا آلہ ہوتا ہے جس سے پتّھر پھینک کر مارا جاتا ہے اس کی زَد بڑی زبردست اور دُور کی مار ہوتی ہے)سے پتّھروں کی بارش کی۔اِس سنگ باری سے حَرَم شریف کاصحنِ مُبارَک پتّھروں سے بھر گیا اور مسجد ِحرام کے سُتون ٹُوٹ پڑے اور کعبۂ مُقَدَّسہ کے غِلاف شریف اورچھت کو اُن بے دِینوں نے جلادِیا۔ اِسی چھت میں اُس دُنبہ کے سینگ بھی تَبَرُّک کے طور پر محفوظ تھے، جو حضرت سَیِّدُنا اسمٰعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فِدْیہ میں قُربانی کِیا گیا تھا،وہ (سِینگ)بھی جل گئے، کعبۂ مُقَدَّسہ کئی روز تک بے لباس رہا اور وہاں کے باشندے (یزیدی لشکر کی طرف سے پہنچنے والی)سخت مُصیبت میں مبُتْلا رہے۔(خلاصہ سوانح کربلا،ص ۱۷۷ تا۱۷۹ ،ملخصاً)
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! یزید
پَلید جب تک زِنْدہ رہا،ظُلم و سِتَم کی آندھیاں چلاتا رہا۔اُس کی پوری زندگی بے
رحمی کی افسوسناک داستان ہے ،یزید کے ہاتھ مکہ و مدینہ اور شُہدائے کربلا کے
مظلوموں کے خُون سے رنگے ہوئے ہیں،اِقْتِدار کی ہَوَس نے اُسےپاگل اور اَفْرادی
قوّت نے اُسے مَغْرُور بنا ڈالا تھا، چاہئے تو یہ تھا کہ وہ راکبِ دوشِ
مُصْطَفٰے،جگر گوشۂ مُرتَضیٰ،دِلْبَندِ فاطمہ،سُلْطانِ کربلا،سَیِّدُ
الشُّہَدا،اِمامِ عالی مقام،اِمامِ عرشِ مقام،امامِ ہُمّام،اِمامِ تِشْنہ کام کے
فضائل و کمالات سے مُتَعَلِّق فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پیشِ نظر رکھ کر اُن کی قَدْر و مَنْزِلَت
کا اِعْتِراف کرتا ، اُن کی اور اُن کے رُفَقا کی خدمت کرکے
جنّت پالیتا، مگر آہ! اُس نے تو شیطانِ لَعِیْن اور نَفْسِ اَمّارہ کی غُلامی کا
طَوْق اپنے گلے میں ڈالے رکھا اور مُسلسل ہَٹ دَھرمی کا مُظاہَرہ کرتا رہا ،بالآخر
اپنے ناپاک منصوبے کو عَمَلی جامہ پہناتے ہوئے
اُس ظالِم و جابِر اور فاسِق وفاجِرنے گُلشنِ اہْلِ بَیْت کو جس بے دَرْدی کے ساتھ اُجاڑا اور پیارے آقا، مکی
مدنی