Book Name:Musalman ki Parda Poshi kay Fazail

اور نہ ہی ہم اُس کے کہنے پر اُن عُیُوب کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ہم نصیحت کرنے والے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اُسے کہتے ہیں کہ تم میں بھی تو فُلاں فُلاں عیب ہیں۔([1])

بَہرحال اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکم ہویا محکوم،سیٹھ ہو یا نوکر،افسر ہو یا مزدُور، ڈاکٹرہو یا مریض،ٹھیکیدار ہو یا مِستَری،اُستاد ہو یا طالبِ علم، بھابھی ہو یا دیورانی،ساس ہو یا بہو،الغَرَض عیب جوئی کی اِس منحوس بیماری نے ہر طبقے میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔انسان جب کسی کی پولیں(کمزوریاں)  کھولنے پر آجاتا ہے تو وہ اَخْلاقیات کی تمام حدیں پار کرڈالتا ہے اور خُونی رِشتے بھی اُس کی نظر میں بے قدْر  وبےقیمت ہوجاتے ہیں حتّی کہ کبھی کبھار ایسی بد بختی غالب آجاتی ہے کہ  ہدایت کے روشن تاروں یعنی صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جیسی مُقدَّس ہستیوں پر بھی طَعن و تَشْنِیْع کرنے میں مبُتلا ہوجاتا ہےاور اُن کی پاکیزہ شخصیات بھی اُس بد نصیب کو مَعَاذَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ عیب دار نظر آنے لگتی ہیں ۔ایسوں کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی خُفْیہ تدبیر سے ڈر جانا چاہئے، کیونکہ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شان میں گستاخی کرنے والا دُنیا میں بھی ذِلّت کا مَزہ چکھتا ہے اور مَرنے کے بعد بھی ذِلّت و خواری اُس کا مقدَّر بن جائے گی جیسا کہ

دو جہاں کے تاجْوَر،سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اِرشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہعَزَّوَجَلَّسے ڈرو ،میرے بعد اُنہیں (تنقید کا)نشانہ نہ بنانا ، جس نے اُن سے مَحَبَّت رکھی، تو اُس نے میری مَحَبَّت کے سبب اُن سے مَحَبَّت رکھی اور جس نے اُن سے بُغض رکھا ،تو اُس نے مجھ سے بُغض کے سبب اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُنہیں اَذِیَّت دی، اُس نے مجھے اَذِیَّت دی اور جس نے مجھے اَذِیَّت دی ،اُس نے اللہ تعالٰی کو اَذِیَّت دی اورقریب ہے کہ اللہ تعالٰی اُس کی پکڑ فرمالے۔([2])

عَداوت اور کینہ اُن سے جو رکھتا ہے سینے میں              وہی بدبخت ہے ملعون ہے مردود شیطانی


 

 



[1] احیاء العلوم،۳/۱۹۶ بتغیر قلیل

[2] ترمذی،کتاب المناقب ،باب فی من سبّ اصحاب النبی  ،حدیث: ۳۸۸۸، ۵/۴۶۳