Book Name:Riya kari
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ذراغور کیجئے کہ رِیا کاری کیسا خطرنا ک عمل ہے کہ دُنیا میں ہونے والی تھوڑی سی واہ واہ ، جھوٹی عزّت اور دوسروں سے چند سِکّوں کے حُصُول کے لئے اپنے اَعمال کا چَرچا کرنا کل بروزِ قیامت جہنّم کی اُس ہولناک وادی میں داخلے کا سبب بن سکتا ہے جس سے خُود جہنّم بھی روزانہ چار سو (400)بار پناہ مانگتا ہے۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ لوگوں کے بجائے اللہعَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے عمل کِیا جائے اور اگرکوئی شخص شیطان کی باتوں اور نَفْسِ اَمَّارَہکی چالوں میں آکر رِیاکاری میں مبتلا ہوجائے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ رِیا سے بچنا تو بہت مُشکل ہے، میں کس طرح نَفْسِ اَمَّارَہکی چال کو ناکام بناؤں ؟میں کس طرح شیطان کے مَضْبُوط جال کو توڑ کر باہر آؤں ؟اور پھر بعض اَوْقات ایسے اَفْراد اِس خیال کو اپنے ذِہْن میں بٹھالیتے ہیں کہ جب ہم رِیاکاری کے بغیر نیک اَعمال نہیں کرسکتے تو ایسے اعمال کرنے کا کیا فائدہ؟یوں آہستہ آہستہ نیک اعمال سے دُور ہوتے جاتے ہیں اور خُوش بختی اور سَعادَت مَنْدِی سے مُنہ موڑ لیتے ہیں۔ ایسے اسلامی بھائیوں کی خِدْمت میں مَدَنی اِلتجاء ہے کہ اگراپنا مُحَاسَبَہ کرتے ہوئےرِیاکاری ظاہر ہو تو اُس کا علاج کریں کیونکہ کسی بھی مَرض کو لاعِلاج سمجھ کر اس سے بے پرواہی کرنا عقلمندی نہیں بلکہ جو مَرض جس شِدّت سے بڑھے، اس کے علاج میں بھی اُتنا ہی اِہتمام کرنا چاہئے۔چونکہ رِیا کاری بھی ایک باطنی بیماری ہے لہٰذا اس کاعلاج کرنا ہی مُناسِب ہے نہ کہ اس کو لاعِلاج سمجھ کے چھوڑ دِیا جائے،یاد رکھئے! اگر مکھی ناک پر بیٹھ جائے تو مکھی کو اُڑایا جاتا ہے،ناک نہیں کاٹی جاتی ۔ اس لئے رِیاکاری کے ڈر سے نیک اعمال کو تَرک نہ کِیا جائے بلکہ رِیاکاری سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی جائے ۔چُنانچہ،
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت مُفْتی احمدیار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانرِیاکاری کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خیال رہے کہ رِیا سے عِبادت ناجائز نہیں ہوجاتی(یعنی ایسا نہیں کہ رِیا کاری سے نَماز پڑھی تو اُسے