Book Name:Tawakkul Or Qanaat
1) قناعت کرنے والا اَسباب سے زیادہ خالقِ اسباب عَزَّ وَجَلَّپر نظر رکھتا ہے،اس طرح وہ غیروں کی مُحتاجی سے بچ جاتا ہے۔ جبکہ قَناعت سے عاری شخص اسباب پر نظریں جما کر اِنہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اسی طرح وہ لوگوں سے اُمیدیں باندھتا اور ان سے توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔
2) قناعت انسان کو خواہشات کا پیروکار بننے سے بچالیتی ہےاور اس کی برکت سے زندگی سُکون اور اطمینان(Satisfaction) سے بسر ہوتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی بے سکونی اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہے۔
3) قناعت سے حِرْص و لالچ اور بُخْل جیسی بُری عادتیں ختم ہوتی ہیں،اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رِضا پر راضی رہنے،راہِ خُدا میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے میں قناعت بےحد مؤثر ہے۔ جبکہ قناعت سے خالی شخص میں حِرْص اور بُخْل جیسی بُری عادتیں پیدا ہوسکتی ہیں، نیز ایسا شخص کسی خواہش کے پورا نہ ہونے پر مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا پر اعتراض کرنے لگتا ہے۔
4) سب سے بڑھ کرقناعت کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا حاصل ہوتی ہے۔فرمانِ مُصْطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے:اُس شخص کے لیے خوشخبری ہے،جو اسلام کی ہدایت پائے او راس کی روزی بقدرِضرورت ہواوروہ اس پر قناعت کرے۔( ترمذی، کتاب الزھد،باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ،ج۴،ص۱۵۶، حدیث: ۲۳۵۵)
رہیں سب شاد گھر والے شَہا تھوڑی سی روزی پر
عَطا ہو دَوْلتِ صَبْر و قناعَت یَارَسُوْلَاللہ
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد