Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool
دُوسری بار حج کے لئے حاضِر ہوئے تو مدینۂ منوَّرہ میں نبیِ رَحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زِیارت کی آرزو لئے روضۂ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے،مگر پہلی رات قسمت میں یہ سَعادت نہ تھی۔ اِس موقع پر وہ معروف نعتیہ غَزل لکھی، جس کے مَطْلَع (یعنی پہلے شعر)میں دامنِ رحمت سے وابستگی کی اُمّید دِکھائی ہے:
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
(حدائقِ بخشش،ص۹۹)
شعر کی وضاحت:اے بہار جُھوم جا کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے۔وہ دیکھ! مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسُوئے لالہ زار یعنی جانِب گُلزار تشریف لا رہے ہیں۔
مَقْطَع (یعنی آخر ی شعر جس میں شاعر کا تَخَلُّص آتا ہے)میں بارگاہِ رسالت میں اپنی عاجِزی اور بے مایَگی (بے ۔ما۔یَہ۔گی یعنی مسکینی)کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے کہ،
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شَیْدا ہزار پھرتے ہیں
(حدائقِ بخشش،ص۱۰۰)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے مِصْرَعِ ثانی (دوسرےمِصْرَع)میں بطورِ عاجزی اپنے لئے ”کُتّے“ کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے، مگر اَدَباً یہاں ”شَیْدا“لکھ دِیا ہے(جس کا مطلب ہے عاشق)۔
شعر کی وضاحت:اِس مَقْطَع میں عاشِقِ ماہِ رِسالت،سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کمال انکساری کا اِظہار کرتے ہوئے اپنے آپ سے فرماتے ہیں:اے احمد رضا!تُو کیا اور تیری حقیقت کیا!تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ (یعنی مدینے کے کُتّے) گلیوں میں دیوانہ وارپھر رہے ہیں۔