Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool
کُل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غِذا اس شِکَم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش،ص۲۹۹ تا ۳۰۴ ملتقطا)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرت،آپ کے فتاویٰ، ملفوظات اور آپ کی نعتیہ شاعری کو پڑھ یا سُن کر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عِشْقِ رسول آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی نَس نَس میں سَمایا ہوا تھا۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے عُمْر بھر محبوبِِ خدا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و تَوْصِیْف بیان کی،حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ سَتُودہ صفات(یعنی جس میں قابلِ تعریف خوبیاں ہوں)پر اِعْتراضات کرنے والوں کو منہ توڑ جوابات دیئے اور قرآنِ پاک کے ترجمےمیں بھی شانِ رسالت کا خاص خیال رکھا۔یوں سمجھئے کہ عِشْقِ مُصْطَفٰے کی شمع لوگوں کے دل میں روشن کرنا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکا بُنیادی مَقْصَد تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکے نَعْتِیہ دیوان ”حدائقِ بخشش شریف“ کا ہر ہر شعر بھی عِشْقِ رسول کی عکّاسی کرتا نظر آتا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو سمجھ آئے گا کہ یہ کائنات حسین مناظر سےبھری ہوئی ہے، ان مناظر اور نظاروں کو ہر کوئی اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے، سائنسدان انہیں اپنی سائنس کی روشنی میں دیکھتا ہے، جغرافیہ دان انہیں اپنے علم کی روشنی میں دیکھتا ہے، کمسٹری والا انہیں علمِ کمسٹری کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ چونکہ پکے عاشقِ رسول تھے اس لیےآپ ان تمام مناظر کو عشقِ رسول کی نگاہِ سے دیکھتے اور ذہن میں آنے والے خیالات کو نعتیہ شاعری کی صورت میں بیان بھی فرماتے۔ آپ کے نعتیہ کلام حدائقِ بخشش میں کئی مناظرِ قدرت کو عشقِ رسول میں ڈوب کر اسی عشقی