Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool
یعنی سرکارِ دوعالم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےحسن و جمال کا کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی ہونا تو دور کی بات ہے کسی کمی کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرے مصرعے کا مطلب ہے کہ عموماً پھول کے ساتھ کانٹا ہوتا ہے، شمع کے ساتھ دھواں ہوتا ہے، لیکن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باغِ رسالت کے ایسے پھول ہیں جس میں کوئی کانٹا نہیں ہے اور آپ ایسی شمع ہیں جس میں کوئی دھواں نہیں ہے۔
اس کلام کے مَقْطَع یعنی آخری شعر میں ریاست نان پارہ کے نواب صاحب کی تعریف میں قصیدہ نہ لکھنے کی نفیس اور عشق ومحبت میں ڈوبی ہوئی وجہ اس طرح بیان فرمائی کہ
کروں مدحِ اہلِ دُوَل رضا پڑے اس بلا میں مِری بلا |
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں |
(حدائقِ بخشش،ص۱۰۹) |
یعنی اے رضاؔ کیا میں دولت مندوں ،دنیا کے نوابوں اور حکمرانوں کی تعریف و خوشامد کروں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مالداروں کی خوشا مد کرنا ایک بلا (مصیبت)ہے اور اس بلا میں مری بلا ہی پڑے۔ (یعنی مجھ سے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا) جبکہ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ میں تو اپنے رسولِ کریم، محبوبِ عظیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دَربارِ دُربار کا بھکاری ہوں،میرا دِین ”روٹی کا ٹکڑا “ نہیں کہ جدھر ”مال“ دیکھا اُدھر لُڑھک گئے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ،ص۳۰ماخوذًا) اللہپاک ہمیں بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جیسی خود داری نصیب فرمائے۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد