Book Name:2 Mubarak Hastiyan
پىاری پىاری اسلامى بہنو!یہاں یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ نکاح کا حق مَہْر صرف مالِ مُتَقَوِّم ہی ہو سکتا ہے۔ ([1]) اور شریعتِ محمدیّہ میں حق مَہْر کی کم از کم مقدار دو تولہ ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ جبکہ(باہمی رضا مندی سے)زیادہ سے زیادہ کی کوئی حَد(Limit)نہیں ہے۔ ([2]) اور ابھی جو واقعہ ہم نے سنا کہ حضرت بیبی اُمِّ سُلَیم نے مَہْر اسلام لانے کو قرار دیا تھا تو اس کی شرح میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو حضرت بی بی اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ عَنْہا نے مَہْر معاف کردیا تھا ، یا یہ مطلب ہے کہ مَہْرِ مُعَجَّل یعنی نکاح کا چڑھاوا کچھ نہ لیا تھا۔ ([3])
پیاری پیاری اسلامی بہنو!اس حکایت میں ہمارے لیے درس کے کئی پہلو موجود ہیں۔ ایک بات تو یہ پتہ چلی ہےکہ ماضی کی خواتین واقعتاً بے مثال تھیں ، غور کیجئے! آج کےاس تَرَقّی یافتہ دَور میں بھی اگر کوئی خاتون خُدانخواستہ بیوہ ہو جائے تو اسے ایک مضبوط سہارےکی ضرورت ہوتی ہےاور اگر کہیں سے یہ سہارا مل جائے تو اسے اپنانے میں دیرنہیں کی جاتی اور نہ کرنی چاہئےجبکہ وہ دَورتوابھی جہالت کی ظلمتوں سے نکل رہا تھا ، وہاں بیوہ کے ساتھ کیا سُلوک ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، ایسے ماحول میں جب حضرت بی بی اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ عَنْہا کو حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی صورت میں ایک مضبوط سہارا مل رہا تھا ، جو مالدار تھے ، اپنے دَور کے معزّز لوگوں میں شامل تھے ، عزّت وحَشْمت کےمالک تھے ، جب انہوں نے پیغامِ نکاح بھیجا تو حضرت بی بی اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ عَنْہا نے خُوش ہونےکی بجائے ، اپنی قسمت پر ناز کرنے کی بجائے ، حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے مال ودولت کی طرف توجہ دینے کی بجائے اور اپنے مستقبل کے اچھے اچھے خواب دیکھنے کی بجائے دین اور اسلام کی دعوت دینے کو سب پر ترجیح دی ، اسلام کیخدمت کرنے کو انہوں نے ترجیح دی ، نیکی کی دعوت دینے کو انہوں نے ترجیح دی اور اپنے اس عمل سے انہوں نے یہ بتا دیا کہ دین کی مَحَبّت ، دین کا پیار ، دین کی خدمت کی سوچ ، نیکی کی دعوت کو ترجیح دینے کاجذبہ اوردین کی تبلیغ کا جذبہ زیادہ اہم ہے۔