Book Name:2 Mubarak Hastiyan
کرتے ہوئے فرمانے لگے : تمہیں اپنے اِن زیورات کا حال معلوم ہے کہ تمہارے والد نے یہ کس طرح حاصل کئے اور پھر کس طرح تمہیں دیئے؟ اگر تم اجازت دو تو میں انہیں ایک صَندُوق میں بندکرکےتالا لگا کر بَیْتُ الْمال کےآخری گوشے میں رکھ دوں ، اگر اس سے پہلے بَیْتُ الْمال کا سارا مال خرچ ہوجائے تو اسے بھی خرچ کر ڈالوں گا اوراگر اسے خرچ کرنے سے پہلےہی میرا اِنتقال ہوجائے تو تمہیں یہ مل ہی جائیں گے۔ (یعنی بعد کاخلیفہ تمہیں واپس کر ہی دے گا۔ ) زوجہ نےسعادت مندی سےکہا : جیسی آپ کی رائے ہو ، میری طرف سے اجازت ہے۔ چُنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے زیورات بَیْتُ الْمال میں رکھوا دئیے ، یہ زیورات ابھی بَیْتُ الْمال ہی میں موجود تھے کہ حضرت عُمر بن عَبْدُ الْعزِیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاوِصال ہوگیا بعد میں حضرت بی بی فاطمہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہا کےبھائی یزیدبن عبدُالملک خلیفہ ہوئےتویہ زیورات اُنہیں واپس کرنا چاہے مگر انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے اِنکار کردیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں حضرت عُمر بن عَبْدُ الْعزِیز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی زندگی میں زیورات سے دَست بردارہوجاؤں(یعنی چھوڑ دوں)اورانکی وفات کےبعد واپس لے لوں۔ چُنانچہ خلیفہ نے یہ زیورات گھر کی دوسری عورتوں میں تقسیم کردیئے۔ ([1])
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو!اس حکایت میں ہمارے لیےدرس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بھی منصب اور عُہْدہ گھر بھرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اللہپاک کی مخلوق کی خدمت کر کےاس کی رضا پانے کےلیے ہوتا ہے اور جو لوگ اسی بات کو اپنا مقصد بناتے ہیں وہ اس دُنیا میں بھی کامیاب رہتے ہیں اور آخرت میں بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔